سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا اپنے يا دسرے كے بچى كى رضاعت كے ليے خاوند كى اجازت شرط ہے ؟

151615

تاریخ اشاعت : 07-03-2024

مشاہدات : 663

سوال

كيا چھوٹے بچے كى رضاعت ميں خاوند كى رضامندى شرط ہے  ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقھاء كا اتفاق ہے كہ جب بچے كو ضرورت ہو تو رضاعت كى عمر ميں دودھ پلانا واجب ہے، ليكن كس پر واجب ہوگا اس ميں فقھاء كا اختلاف پايا جاتا ہے:

شافعى اور حنابلہ كہتے ہيں كہ باپ پر اپنے بچے كى رضاعت واجب ہے، ماں پر واجب نہيں، اور خاوند اپنى بيوى كور ضاعت پر مجبور نہيں كر سكتا، ماں چاہے بے دين ہو يا پھر شريف عورت ہو، چاہے عورت بچے كے باپ كےنكاح ميں ہو يا پھر اسے طلاق بائن ہو چكى ہو، ليكن جب يہ تعيين ہو جائے كہ باپ كو دودھ پلانے والى نہيں مل رہى، يا بچہ كسى دوسرے كا دودھ قبول نہ كرتا ہو، يا پھر بچے اور اس كے باپ كے پاس مال نہ ہو تو پھر اس وقت عورت پر دودھ پلانا واجب ہو جائيگا.....

مالكيہ كہتے ہيں:

" ماں پر بغير كسى معاوضہ اور بركت كے دودھ پلانا واجب ہے، اگر اس طرح كى عورت دودھ پلاتى ہو تو وہ بھى پلائيگى "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 239 ).

دوم:

جمہور فقھاء كرام كہتے ہيں كہ اگر ماں اپنے بچے كو دودھ پلانا چاہے تو اسے ايسا كرنے دينا واجب ہے، ليكن شافعيہ كے ہاں جيسے بغير اجازت گھر سے نكلنے سے روكنے كا حق ہے اسى طرح خاوند كو دودھ پلانے سے منع كرنے كا حق حاصل ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں يہ بھى درج ہے:

" رضاعت ميں ماں كا حق:

جمہور فقھاء كے ہاں اگر ماں اپنے بچے كو دودھ پلانے كى رغبت ركھے تو اس كى رغبت پورى كرنا واجب ہے، چاہے وہ مطلقہ ہو يا خاوند كے نكاح ميں ہو؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ والدہ كو اس كے بچے كے ساتھ نقصان و ضرر نہيں ديا جائيگا }.

اور ماں كو دودھ نہ پلانے دينا بھى نقصان و ضرر ميں شامل ہوتا ہے؛ اور اس ليے بھى كہ ماں تو اپنے بچے كے ليے سب سے زيادہ رحيم و شفيق ہوتى ہے، اور غالب طور ماں كا دودھ بچے كے ليے زيادہ مناسب ہوتا ہے.

شافعيہ كے قول كے مطابق خاوند كو دودھ پلانے سے منع كرنے كا حق حاصل ہے چاہے اس كا اپنا بچہ ہو يا كسى دوسرے كا، بالكل ايسے ہى جيسے اسے گھر سے بغير اجازت جانے سے منع كرنے كا حق ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 240 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند اپنى بيوى كو دودھ پلانے سے منع نہيں كر سكتا ليكن اگر ماں ميں كوئى ايسى بيمارى ہو جس سے بچے كو بھى خدشہ ہو تو پھر روكا جا سكتا ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 426 ).

ليكن پہلے خاوند يا كسى دوسرے اجنبى بچے كو دودھ پلانے ميں خاوند كى اجازت شرط ہے؛ ليكن اگر بيوى نے رضاعت كے ليے كسى بچے كى تعيين كر دى تو پھر اجازت كى ضرورت نہيں.

زاد المستقنع ميں درج ہے:

" خاوند كو حق ہے كہ وہ بيوى كو اجرت پر كام كرنے اور اپنے علاوہ كسى دوسرے سے پيدا شدہ بچے كو دودھ پلانے سے روكنے كا حق حاصل ہے "

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اس كى شرح ميں كہتے ہيں:

" يہ اس طرح ہوگا كہ عورت كو پہلے خاوند نے طلاق دے دى ہو اور وہ پہلے خاوند سے حاملہ ہو اور وضع حمل سے عدت ختم ہونے پر كوئى دوسرا شخص اس سے شادى كر لے اور وہ ابھى اپنے بچے كو دودھ پلا رہى ہو، تو دوسرے خاوند كو پہلے خاوند كے بچے كو دودھ پلانے سے روكنے كا حق حاصل ہے، ليكن دو حالتوں ميں نہيں روك سكتا:

پہلى حالت:

كسى ضرورت كى بنا پر، مثلا وہ بچہ ماں كے علاوہ كسى دوسرى عورت كا دودھ قبول نہ كرتا ہو، تو پھر اسے بچانا لازم ہے.

دوسرى حالت:

بيوى نے دوسرے خاوند پر شرط ركھى ہو، اگر وہ شرط كى موافقت كرتا ہے تو پھر اسے شرط پورى كرنا لازم ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 426 ).

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب