الحمد للہ.
بيوہ عورت عدت وہيں گزارےگى جہاں اسے خاوند فوت ہونے كى خبر ملى تھى، وہ بغير كسى ضرورت و حاجت كے كسى دوسرے گھر منتقل نہيں ہو سكتى، چاہے وہ دوسرا گھر اس كى ملكيت بھى ہو، ضرورت كى خاطر وہ دن كو گھر سے جائيگى اور عدت ختم ہونے تك رات كے وقت بھى ضرورى كام كے علاوہ نہيں نكل سكتى.
فريعۃ بنت مالك رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ميں اپنے خاندان بنو خدرہ كے ہاں منتقل ہو سكتى ہوں، كيونكہ ميرا خاوند اپنے بھاگے ہوئے غلاموں كو لانے گيا جب قدوم جگہ كے كنارے پہنچا تو ان غلاموں نے اسے قتل كر ديا، تو اس نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ كيا ميں اپنے خاندان والوں كے پاس چلى جاؤں، كيونكہ ميرے خاوند نے ميرے ليے اپنى ملكيت كى كوئى رہائش اور نان و نفقہ نہيں چھوڑا.
وہ بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جى ہاں چلى جاؤ، وہ كہتى ہيں ميں وہاں سے نكلى حتى كہ جب حجرہ يا مسجد ميں پہنچى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے بلايا يا مجھے بلانے كا حكم ديا اور پھر فرمايا:
تم نے كيا كہا ہے ؟
تو ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے اپنے خاوند كا سارا قصہ دہرايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اپنے گھر ميں ٹھرى رہو حتى كہ عدت ختم ہو جائے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2300 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1204 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3529 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2031 ).
اور نسائى شريف كى ايك روايت ميں ہے كہ:
" ميں اپنے خاوند كى رہائش ميں نہيں ہوں، اور نہ ہى اس كى جانب سے مجھے كھانا پينا حاصل ہے، تو كيا ميں يتيم بچوں كے ساتھ اپنے خاندان والوں كے ہاں منتقل ہو جاؤں اور ان كى ديكھ بھال كروں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جاؤ كرو، پھر آپ نے فرمايا: تم نے كيا كہا ؟ تو ميں نے آپ كے سامنے سارا واقعہ بيان كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جہاں تمہيں وفات كى خبر ملى وہيں عدت بسر كرو "
اور ابن ماجہ كى ايك روايت ميں ہے:
" تم اپنے اس گھر ميں عدت بسر كرو جہاں تمہيں اپنے خاوند كى موت كى خبر ملى تھى "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ وغيرہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خاوند فوت ہونے كے وقت بيوى جس گھر ميں رہتى تھى چاہے وہ خاوند كى ملكيت ہو يا كرايہ پر ہو يا عاريتا حاصل كيا ہوا ہو وہيں بيوى عدت بسر كريگى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فريعۃ رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:
" تم اپنے گھر ميں رہو "
حالانكہ وہ گھر اس كے خاوند كى ملكيت نہ تھا، اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:
" جس گھر ميں تمہيں اپنے خاوند كى وفات كى خبر ملى تھى تم اسى گھر ميں اپنى عدت پورى كرو "
اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:
" جہاں تمہيں خبر ملى تھى وہيں عدت پورى كرو "
اور اگر اسے اپنى رہائش كے علاوہ كسى اور كے گھر ميں خاوند فوت ہونے كى خبر ملے تو وہ اپنى رہائش پر واپس آئيگى اور وہيں عدت پورى كريگى " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 9 / 167 ).
مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 4 / 248 ) كا بھى مطالعہ كريں.
مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے علماء كا كہنا ہے:
" بيوہ عورت كے ليے واجب ہے كہ وہ اپنى عدت وہيں اور اسى گھر ميں پورى كرے جس ميں وہ رہ رہى تھى، اگر حاملہ نہيں تو چار ماہ دس دن اور اگر حاملہ ہے تو وضح حمل عدت ہوگى.... اور دن كے وقت ضرورت كى خاطر گھر سے نكلنا جائز ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 474 ).
مزيد آپ فتاوى ابن باز رحمہ اللہ ( 22 / 194 - 195 ) كا بھى مطالعہ كريں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك عورت كا خاوند فوت ہوگيا اور اب وہ عدت ميں ہے، خاوند نے وراثت ميں جائداد اور مال چھوڑا بيوى كے حصہ ميں ايك بنگلہ آيا اب وہ اس بنگلہ ميں سامان تيار كروا رہى ہے وہ كہتى ہے كہ آيا ميں دن كے وقت سامان وغيرہ كى ترتيب دينے بنگلہ ميں جا سكتى ہوں تا كہ اس كى نگرانى بھى كر سكوں يا كہ مجھے گھر ميں ہى رہنا ہوگا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" ميرى رائے تو يہى ہے كہ اسے اسى گھر ميں رہنا چاہيے جس گھر ميں وہ خاوند كى وفات كے وقت رہتى تھى؛ كيونكہ عدت پورى ہونے تك بنگلہ كے سامان كى ترتيب ميں تاخير كرنے ميں كوئى نقصان نہيں.
ليكن اگر اسے گھر سے باہر جانے كى ضرورت پيش آ بھى جائے تو وہ دن كو نكلے اور رات گھر واپس آجائے " انتہى
ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 67 / 20 ) اور فتاوى نور على الدرب ابن عثيمين ( 10 / 464 ) كا بھى مطالعہ كريں.
چنانچہ اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر بيوہ عورت كو اپنى عدت اسى گھر اور رہائش ميں پورى كرنا ہوگى جس گھر ميں وہ خاوند كى وفات كے وقت رہ رہى تھى اور اسے خاوند كى وفات كى خبر ملى تھى، وہ اس گھر سے كسى دوسرے گھر ميں مت جائے، چاہے وہ اس كى دوسرى رہائش ہى ہو يا پھر اولاد اور بچوں كا گھر ہو تو بھى مت جائے.
رہى سائل كى يہ بات كہ اس كى والدہ جدائى كى پريشانى كا شكار ہے، اور ڈاكٹر نے اسے جگہ كى تبديلى اور پيدل چلنے كا كہا ہے.
يہ چيز عدت والے گھر سے نكلنے كا جواز پيدا نہيں كرتى، رہى اس كى مشكلات اور جگہ كى تبديلى كى ضرورت تو يہ اس كى نفسياتى حالت پر منحصر ہے جو خاوند كى جدائى كے بعد پيدا ہوئى ہے، اور اس ميں عام طور پر سب عورتيں برابر كى شريك ہوتى ہيں.
اگر ہم اسے معتبر شمار كريں تو پھر كوئى بھى عورت اپنے اس گھر ميں نہيں رہےگى جس ميں وہ خاوند كے ساتھ رہتى رہى ہے.
اسى طرح چہل قدمى كے بارہ ميں يہى ہے كہ وہ گھر كے لان ميں ٹہل سكتى ہے، اگر گھر ميں لان نہيں تو پھر دن كے وقت وہ اپنے كسى رشتہ دار يا بيٹے كے لان ميں جا كر ٹہل سكتى ہے، جب اسے اس كى ضرورت پيش آئے تو دن كے وقت ايسا كرے اور شام سے قبل واپس آ جائے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 128534 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .