الحمد للہ.
سنت یہ ہے کہ میت کو اسی طرح وضو کروایا جائے جیسے وہ نماز کے لیے وضو کرتا ہے، اس کی دلیل سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اپنی صاحبزادی کو غسل دینے کے لیے حکم دیا تھا کہ: (میت کی دائیں جانب سے غسل دینا شروع کریں اور پہلے وضو والے اعضا سے آغاز کریں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1255) اور مسلم : (939) نے روایت کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں میت کو وضو کروانا مستحب قرار دیا گیا ہے اور یہی ہمارا ، امام مالک اور جمہور کا موقف ہے جبکہ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ میت کو وضو کروانا مستحب نہیں ہے۔
ہمارے ہاں میت کو غسل دینے سے پہلے وضو ہو گا، جیسے غسل جنابت میں ہوتا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: شرح مسلم از علامہ نووی
تاہم اس وضو سے کلی اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنا شامل نہیں ہو گا، صرف گیلے کپڑے سے صاف کرنا کافی ہو گا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/165)میں کہتے ہیں:
"اکثر اہل علم کے موقف کے مطابق : میت کے منہ اور نتھنوں میں پانی نہیں ڈالا جائے گا۔ یہی موقف سعید بن جبیر، نخعی، ثوری اور ابو حنیفہ کا ہے۔ اس لیے کہ منہ اور ناک میں پانی ڈالنے سے عین ممکن ہے کہ پانی معدے تک چلا جائے ، اور اسے نکالنے کے لیے مثلہ کرنا پڑے ، اور ممکن ہے کہ اندر جانے والا پانی کفن میں نکل جائے۔" ختم شد مختصراً
ایسے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس لیے کہ زندہ شخص اگر منہ میں پانی ڈال کر اسے حرکت دے تو وہ کلی کر دیتا ہے اور پانی باہر نکل جاتا ہے، لیکن اگر میت کے منہ میں پانی ڈالا تو پانی پیٹ کی طرف چلا جائے گا، اور یہی بات ہم ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنے کے متعلق کرتے ہیں ؛ کیونکہ میت تو پانی ناک میں چڑھا ہی نہیں سکتی، نہ ہی اسے چڑھا کر دوبارہ جھاڑ سکتی ہے، اس لیے ہم کہیں گے کہ میت کے منہ اور ناک میں پانی نہ ڈالا جائے۔ " ختم شد
"الشرح الممتع"(5/131)
اسی طرح علامہ محمد المختار شنقیطی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بنا پر: میت کو کلی کروانے اور ناک میں پانی ڈالنے کی بجائے گیلی انگلیوں کے ذریعے ہونٹوں پر پانی لگائے، اور اسی طرح گیلی انگلی دونوں نتھنوں میں ڈال کر صاف کرے۔ مصنف رحمہ اللہ نے یہی ذکر کیا ہے کہ: پانی لگا کر گیلی انگلیاں ہونٹوں کے درمیان داخل کر کے دانت صاف کرے اور اسی طرح نتھنوں کو بھی صاف کرے، ناک اور منہ میں پانی مت ڈالے۔" ختم شد
ماخوذ از: "شرح الزاد"
واللہ اعلم