الحمد للہ.
اگر ممكن ہو تو آپ فجر سے قبل اور مغرب كے بعد دوائى كھا ليا كريں، اور آپ كى حالت اس تبديلى كے ساتھ صحيح رہے تو ، اور اگر اس دوائى كى بجائے كوئى ٹيكہ وغيرہ ہو تو بھى اس كى جگہ لے سكتا ہے، اس ليے آپ اپنے ڈاكٹر سے مشورہ كريں كہ دوائى كى بجائے رمضان ميں كوئى اور چيز استعمال كى جا سكتى ہے يا نہيں، اور وہ چيز روزے كى حالت ميں استعمال كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور اگر دن كے وقت دوائى كھانا ضرورى ہو اور دوائى كے اوقات ميں تبديلى كى بنا پر شديد تنگى اور مشقت كا سامنا كرنا پڑے تو آپ معذور ہيں، روزہ چھوڑ سكتى ہيں اور اس كى بعد ميں قضاء كر ليں.
اكثرعلماء كرام كى رائے ہے كہ مريض كے ليے رمضان المبارك ميں اسى صورت ميں روزہ چھوڑنا جائز ہے جب مرض شديد ہو.
شديد بيمارى اور مرض سے مراد يہ ہے كہ:
1 - روزے كى بنا پر مرض ميں شدت پيدا ہو جائے.
2 - روزے كى بنا پر شفايابى ميں تاخير پيدا ہو.
3 – چاہے بيمارى ميں اضافہ نہ ہو اور نہ ہى شفايابى ميں تاخير پيدا ہو ليكن روزے كى وجہ سے مريض كوشديد قسم كى مشقت اور تنگى حاصل ہو جائے.
4 - علماء كرام نے اس كے ساتھ ايسے شخص كو ملحق كيا ہے جسے روزے كے باعث مرض لاحق ہو جائے.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 12488 ) اور ( 65871 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .