اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا گواہوں اور ولی کی عدم موجودگی میں نکاح کرنا جائز ہے؟ کیونکہ علاقے میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔

154356

تاریخ اشاعت : 24-09-2024

مشاہدات : 1138

سوال

الحمدللہ میرا ایک امریکی لڑکی سے تعارف ہوا اور پھر وہ لڑکی مسلمان ہو گئی، وہ اب دین اسلام پر عمل پیرا ہے اور اس کا عقیدہ بھی بہت مضبوط ہے، میں نے اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ مان گئی، اب سوال یہ ہے کہ: کیا اس لڑکی سے میں بغیر ولی اور گواہوں کے نکاح کر سکتا ہوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں قریب کوئی مسجد یا مسلمان نہیں پائے جاتے، پھر لڑکی کے گھر والوں نے مسلمان ہونے پر اسے اپنے گھر سے بے دخل کر دیا ہے، اور وہ اب اس سے رابطہ بھی نہیں کرنا چاہتے، دوسری طرف مجھے خود ہی نکاح کا طریقہ کار آتا ہے، ہم نکاح کے لیے کسی جگہ نہیں جا سکتے؛ کیونکہ مسجد وغیرہ یہاں سے بہت دور ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام میں شادی کے ارکان اور شرائط ہیں، چنانچہ اگر یہ ارکان اور شرائط پورے ہوں تو نکاح صحیح ہوتا ہے۔ جس میں ایجاب و قبول رکن ہیں۔ ایجاب یہ ہے کہ: لڑکی کا ولی لڑکے سے مخاطب ہو کر کہے: میں نے فلاں اپنی بیٹی، یا بہن کا نکاح تم سے کیا۔ اور قبول یہ ہے کہ: لڑکا کہے کہ: میں نے اس لڑکی سے نکاح قبول کیا۔

نکاح کی شرائط: نکاح کے بندھن میں بندھنے والے لڑکا اور لڑکی کا تعین ہو، دونوں نکاح پر راضی ہوں، نکاح لڑکی کا ولی کرے یا اس کا نمائندہ کرے، دو مسلمان گواہ بھی موجود ہوں، اور اگر نکاح اعلانیہ ہو تو صحیح موقف کے مطابق گواہوں کی ضرورت نہیں رہتی ۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (124678) کا جواب ملاحظہ کریں۔

مندرجہ بالا امور کے دلائل درج ذیل ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں) اس حدیث کو أبو داود: (2085) ترمذی: (1101) اور ابن ماجہ: (1881)نے ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔) اس حدیث کو مسند احمد: (24417) ، ابو داود: (2083) اور ترمذی: (1102)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع : (2709) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اگر کسی مسلمان لڑکی کا کوئی مسلمان ولی نہ ہو، تو مسلمان قاضی اس کا ولی بن کر نکاح کروائے گا، اور اگر مسلمان قاضی بھی نہ ہو تو مسلمانوں میں سے کوئی بھی با اثر شخصیت مثلاً: جامع مسجد کا امام، یا اسلامی مرکز کا مدیر یا کوئی مشہور عالم دین نکاح کروائے گا، اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو مسلمانوں میں سے کوئی بھی مسلمان نکاح کروا سکتا ہے۔

اس بنا پر: آپ خود اپنا نکاح اس لڑکی سے نہیں کر سکتے، چنانچہ کم از کم آپ اس علاقے میں تین مسلمان تلاش کریں، ہم نہیں سمجھتے کہ یہ مشکل کام ہو گا، اور اگر فرض کریں کہ وہاں مسلمان واقعی نہیں ہیں تو پھر نکاح کوئی معمولی چیز نہیں ہے، اس لیے نکاح کے لیے آپ کو کتنا ہی لمبا سفر کرنا پڑے، یا اخراجات برداشت کرنے پڑیں بہ ہر حال نکاح کو شرعی طور پر صحیح کرنے کے لیے یہ کام کرنا پڑے گا؛ کیونکہ گواہوں اور ولی کے بغیر نکاح سب اہل علم کے ہاں باطل ہے، اور اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے ہوئے ایسا نکاح کرے تو وہ زانی اور گناہ گار ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی کسی لڑکی سے ولی اور گواہوں کے بغیر ہی نکاح کریں اور اسے چھپائیں تو یہ تمام ائمہ کرام کے ہاں متفقہ طور پر باطل نکاح ہے۔” ختم شد
“الفتاوى الكبرى” (3/ 119)

تو آپ کے لیے مشورہ ہے کہ آپ دونوں کسی ایسے علاقے میں جائیں جہاں پر مسلمان موجود ہوں ، یا اگر آپ سفر نہیں کر سکتے تو مسلمانوں کو اپنے علاقے میں آنے کی دعوت دیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب