الحمد للہ.
کتب احادیث میں اس حدیث کا کوئی وجود نہیں ہے، ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ حدیث شعبان میں نمازوں کی فضیلت کیلئے گھڑی گئی ہے، کیونکہ متعدد احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نصف شعبان کی رات ، ماہِ شعبان اور اس ماہ میں نمازوں کی فضیلت پر منسوب کی گئی ہیں، چنانچہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"نصف شعبان اور رجب کے پہلے جمعہ کی رات کے بارے میں جتنی بھی احادیث مشہور ہیں سب کی سب باطل، من گھڑت، اور بے بنیاد ہیں، اگرچہ انکو غزالی جیسے بہت بڑے بڑے علمائے کرام نے "احیاء علوم الدین" وغیرہ میں ذکر کیا ہے"انتہی
" الفتاوى الفقهية الكبرى " (1/184)
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہفتے میں اتوار ، سوموار اور دیگر ایام کے بارے میں بیان کی جانے والی نمازوں کا حکم: علم حدیث کی معرفت رکھنے والے علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ تمام احادیث من گھڑت ہیں، اور ان ایام میں کسی بھی عالم دین نے نفلی نمازوں کو مستحب نہیں کہا"انتہی
" الفوائد الموضوعة " (1/74)
چنانچہ اس جھوٹی اور من گھڑت روایت پر عمل کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا تابع فرمان بننے کیلئے صحیح احادیث کا ذخیرہ کافی ہے۔
واللہ اعلم .