الحمد للہ.
تجارتی انشورنس سود، دھوکہ، اور قمار بازی پر قائم ہے، جیسے کہ اس کی وضاحت پہلے سوال نمبر: (8889) کے جواب میں گزر چکی ہے۔
اس لیے انشورنس کمپنی میں کام کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح
گناہ کے کام میں تعاون ہوگا، اور اللہ تعالی نے گناہ کے کاموں میں تعاون کرنے سے
روکتے ہوئے فرمایاہے:
(
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى
الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، برائی اور زیادتی کے
کاموں میں باہمی تعاون مت کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی سخت عذاب
دینے والا ہے۔ [المائدة :2]
چنانچہ اگر ملازمت ہی حرام ہے تو اس سے حاصل ہونے والا مال بھی حرام ہے، اس میں کوئی خیر و برکت نہیں ہے، بلکہ وہ محض گناہ اور شر ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے کہ:
" میں مصر کی قومی لائف انشورنس کمپنی میں سن 1981 ء سے آج تک بطور اکاؤنٹنٹ کام
کر رہا ہوں، اور اس کے بدلے میں ماہانہ تنخواہ، ماہانہ بونس، اور ٹائم، سمیت سالانہ
منافع کا کمیشن بھی مجھے ہر سال ملتا رہا ہے، پہلے تو مجھے یہ جاننا ہے کہ شرعی طور
پر اس کام کا حکم کیا ہے؟ اور پھر اس کے بعد یہ جاننا ہے کہ مذکورہ بالا تنخواہ
وغیرہ کا کیا حکم ہے؟ اور اگر یہ حلال نہیں ہے، تو اس دوران میں نے جو رقم جمع کی
ہے، اس کا شرعی طور پر کیا حکم ہوگا؟ اور اسی رقم سے میں حج کرنا چاہتا ہوں، یا اسی
رقم کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، میں اللہ تعالی سے یہ دعا کرتا ہوں کہ
آپ مجھے جلد از جلد جواب دیں، اس لئے کہ میں اپنے اس معاملے کی وجہ سے بہت زیادہ
حیران و پریشان ہوں، اللہ تعالی آپ کو ہماری اور تمام مسلمانوں کی طرف سے بہتر بدلہ
عطا فرمائے۔ و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ"
"تو انہوں نے جواب دیا:
1-
لائف انشورنس ایک تجارتی انشورنس ہے جو کہ حرام ہے، اس لئے کہ اس
میں عدم تعین، دھوکہ، اور غلط طریقے سے مال کھانے کا عنصر شامل ہے، چنانچہ اس کمپنی
میں کام کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ اس میں گناہ کے کاموں پر تعاون ہے، اور اللہ
تعالی نے اسے یہ کہتے ہوئے منع فرمایا ہے کہ:
(
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى
الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ)
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، برائی اور زیادتی کے
کاموں میں باہمی تعاون مت کرو ۔[المائدة :2]
2-
تنخواہیں اور معاوضے جو آپ نے اپنے اس کام کے حرام ہونے کے علم سے
پہلے اس کمپنی سے حاصل کیے ہیں انہیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ اس لئے
کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَمَنْ
جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى
اللَّهِ
ترجمہ: جسے اپنے رب کی طرف سے نصیحت مل جائے، اور وہ برائی سے رک جائے تو سابقہ [مال]
اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔[البقرة : 275] اللہ تعالی عمل کی
توفیق دے۔
درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر" انتہی
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
شیخ عبد العزیز بن عبد الله بن باز ۔۔ شیخ عبد الرزاق عفیفی ۔۔ شیخ عبد الله بن غديان
اس بنا پر: آپ اس لڑکی کو حرام ملازمت چھوڑنے کی نصیحت کریں؛ اگر تو
وہ آپ کی بات مان لے تو اس کیساتھ شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اللہ تعالی سے
بہت امید ہے کہ اس کا بہترین بدل عطا فرمائے گا، اور اسے اچھی اور جائز ملازمت بھی
عطا فرمائے گا، بلکہ اپنے افضل سے آپ کو غنی کر دے، جیسے کہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے:
(
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً وَيَرْزُقْهُ مِنْ
حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ
[2]
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ
بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً)
ترجمہ: جو بھی اللہ تعالی سے ڈرے تو اللہ اس کیلئے راستہ نکال دیتا ہے، اور اسے
ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا [2] اور جو بھی اللہ
تعالی پر توکل کرے تو اللہ تعالی ہی اسے کافی ہے، بیشک اللہ تعالی اپنے فیصلوں کو
نافذ کرنے والا ہے، اور اللہ تعالی نے ہر چیز کیلئے ایک مقدار مقرر کی ہے۔[الطلاق:2-3]
اسی طرح فرمایا:
(
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ
فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ
مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)
ترجمہ: ایمان کی حالت میں اچھا کام کرنے والا مرد ہو یا عورت، ہم اسے خوشحال زندگی
سے نوازیں گے، اور ہم انہیں ان کے اچھے اچھے اعمال کا بدلہ بھی ضرور دینگے۔[النحل:97
]
واللہ اعلم.