سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا زکاۃ کی رقوم جانوروں کے کھانے پینے اور علاج معالجے کیلئے استعمال ہو سکتی ہے؟

سوال

سوال: کیا زکاۃ کی رقوم سر عام پھرنے والے جانوروں کے کھانے پینے ، علاج معالجے ، اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنے کیلئے استعمال ہو سکتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے زکاۃ خرچ کرنے کے مصارف بیان کر دیے ہیں ، چنانچہ زکاۃ ادا کرنے والے کیلئے اپنی مرضی سے زکاۃ خرچ کرنے کے دروازے  بند ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ التوبہ:60]

آیت میں مذکور آٹھوں  مصارف زکاۃ کے بارے میں تفصیلی گفتگو سوال نمبر: (46209) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔

عمومی طور پرتمام جانور اللہ تعالی کی طرف سے بیان کر دہ زکاۃ  کے مصارف میں شامل نہیں ہیں، کیونکہ یہ مصارف صرف انسانوں کیلئے ہیں، نیز  اس سے مراد   جانوروں کے کھانے ، یا علاج معالجے سمیت کوئی بھی کام ہو ان مصارف کے کسی حصے میں نہیں آتا۔

تاہم صرف فرض زکاۃ  کی مد میں سے جانوروں پر خرچ کرنا منع ہے، چنانچہ  نفلی صدقہ کی مد میں سے جانوروں کی دیکھ بھال کی جا سکتی ہے۔

اس بارے میں جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی مسلمان  کچھ بھی اگائے  اور اس میں سے کوئی کچھ بھی کھا لے تو یہ اس کیلئے صدقہ ہوگا، اس میں سے چوری ہو جانے والی چیز بھی صدقہ ہوگی، کوئی درندہ کچھ  کھا جائے تو وہ بھی صدقہ ہوگا، پرندے کچھ چگ جائیں تو وہ بھی صدقہ ہوگا، اور کوئی بھی اس کی زراعت میں کمی کا باعث بنے وہ بھی صدقہ ہے)
مسلم (1552) اور بخاری (2220) میں اسی سے ملتی جلتی روایت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک بار ایک شخص راستے پر چلتا ہوا جا رہا تھا، اسے شدید پیاس لگ رہی تھی، اتنے میں اسے ایک کنواں نظر آیا، وہ کنویں میں اترا پانی پیا اور پھر باہر نکلا تودیکھا  ایک کتا پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی کھا رہا ہے، تو اس شخص نے دل میں کہا: اس کتے کو بھی اتنی ہی پیاس لگی ہے جتنی مجھے لگی ہوئی تھی، تو یہ شخص دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا اور موزے کو اپنے منہ میں پکڑ کر باہر چڑھ آیا، اور پھر اس نے کتے کو پانی پلا دیا، اللہ تعالی نے اس کی اس نیکی کی قدر کرتے ہوئے اسے بخش دیا)
صحابہ کرام نے کہا: "یا رسول اللہ! ہمیں جانوروں کیساتھ حسن سلوک پر بھی اجر ملے گا؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہر زندہ جگر رکھنے والے جاندار  کے ساتھ حسن سلوک پر اجر ملے گا)
بخاری: (2363) مسلم: (2244)

یہ بات درست ہے کہ بسا اوقات اس طرح کے کام کرنا اچھا عمل ہے، لیکن یہ کوئی شرعی اور عقلی بات  نہیں ہوگی کہ انسان اپنے آپ کو انہی کاموں کیلئے یکسو کر دے، اور ایسے کاموں کیلئے رفاہی ادارے بنائے، بہت سے انسان بلکہ کئی مسلمان ایسے بھی ہیں جو بھوک افلاس، ننگ دھڑنگ، اور بیماری کی حالت میں فوت ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے پاس اپنا پیٹ پالنے کیلئے یا بیماری کے علاج کیلئے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ سر چھپانے کیلئے جگہ بھی نہیں ہوتی، اس لئے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اگر وہ خود یا اس کی امداد دیگر مسلمان بھائیوں تک پہنچ سکتی ہو تو وہ اپنے بھائیوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کوشش کرے، چاہے وہ کوسوں دور کسی اور ملک میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں؛ کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات