الحمد للہ.
اگر آپ کا بھائی بذاتہ خود غنی ہے، یا اس کے اخراجات برداشت کرنےو
الے موجود ہیں تو وہ واقعی زکاۃ کا مستحق نہیں ہے، اس لیے آپ کو ملنے والی رقم کے
بارے میں علم ہو کہ یہ زکاۃ ہے تو آپ کیلئے اسے وصول کرنا ہی جائز نہیں ہے، چنانچہ
آپ زکاۃ ادا کرنے والے شخص کو یہ لازمی بتلائیں کہ ان کا بھائی زکاۃ کا مستحق نہیں
ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(مالدار اور محنت کی استطاعت کرنے والے کیلئے زکاۃ میں کوئی حصہ
نہیں ہے)
ابو داود : (1391) ، نسائی :(2551) اور البانی نے اسے "صحیح سنن ابو داود "میں صحیح
قرار دیا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے:
(زکاۃ کسی مالدار اور تندرست و توانا شخص کیلئے حلال نہیں ہے)
ابو داود : (1392) ترمذی: (589) ، نسائی: (2550) اور ابن ماجہ: (1829) نے روایت
کیا ہے، اور البانی نے "صحیح سنن نسائی" میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
لہذا آپ کے پاس اس طرح کا جو بھی مال ہے وہ اصل مالک کو واپس کر دیں، تا کہ وہ مستحقین تک اسے پہنچائے، اور اگر وہ آپ کو مستحقین تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپ دے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
چنانچہ "مطالب أولي النهى" (2/ 259) میں ہے کہ:
"اور اگر زکاۃ دہندہ نے لاعلمی کی وجہ زکاۃ کسی غیر مستحق شخص کو دے دی ، تو زکاۃ
وصول کرنے والے کیلئے ہر حالت میں زکاۃ واپس کرنا لازمی ہوگا، بلکہ زکاۃ کے مال سے
حاصل ہونے والا اضافہ بھی واپس کرنا ہوگا، چاہے یہ اضافہ اس چیز کیساتھ ہی متصل ہو،
[مثلاً: جانور زکاۃ کے مال کی شکل میں ملا، اور پھر جانور فربہ ہو گیا] یا منفصل ہو،
[مثلاً: زکاۃ کی مد میں ملنے والے جانور سے بچہ پیدا ہوگیا] یہ سب کچھ واپس کرنا
ہوگا، کیونکہ یہ اضافہ بھی اصل کے تابع ہے" انتہی
واللہ اعلم.