جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

حیض کی وجہ سے میقات پر عمرے کی نیت نہیں کی؛ لیکن پھر بھی باپ سے شرماتے ہوئے عمرہ کر لیا۔

سوال

میں دوران حیض اپنے اہل خانہ اور خاوند کے ساتھ رمضان میں عمرے کے لئے گئی ، جس وقت ہم میقات پر پہنچے تو میں نے عمرے کی نیت نہ کی ؛ کیونکہ مجھے یقین تھا کہ اپنے علاقے میں واپس آنے تک حیض سے غسل نہیں کر پاؤں گی، اور میں نے حیض کے بارے میں کسی سے بھی ذکر نہیں کیا، پھر مکہ سے واپسی سے چند گھنٹوں پہلے مجھے میرے والد نے کہا کہ مجھ پر طواف اور سعی کرنا لازمی ہے چاہے میں نے [احرام کے لئے ]غسل نہ بھی کیا ہو، والد صاحب نے میرے ساتھ جانے کے لئے احرام کی چادریں بھی پہن لیں تھیں، تو مجھے شرم آئی کہ میں انہیں بتلاؤں کہ میں نے تو میقات سے عمرے کی نیت ہی نہیں کی۔ تو میں نے بھی اپنے بال کتروائے، اور آنکھوں میں کاجل لگائی، اور میرے خاوند نے میرے سے بوس کنار بھی کیا جماع نہیں کیا۔۔۔، اپنے والد کو حقیقت حال بتلانے سے شرمانے پر میں نے غسل کر لیا اور وضو کر کے ان کے ساتھ چلتی بنی، میں نے طواف اور سعی کی پھر مکمل ہونے پر بال بھی کاٹے اور پھر ہم اپنے علاقے میں واپس آ گئے، اب جو کچھ بھی میں نے کیا اس کا کیا حکم ہے؟ میری طرف سے جو کچھ بھی ہوا ہے اس کے کفارے میں میں کیا کر سکتی ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

اول:

آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ آپ نے بال کاٹے، آنکھوں میں کاجل لگائی، اور خاوند نے بوس و کنار بھی کیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ آپ نے تو عمرے کی نیت ہی نہیں کی تھی۔

دوم:

آپ نے طواف، سعی اور بال کاٹے تو اس کے بارے میں تفصیل ہے:

1- اگر آپ نے یہ سب چیزیں عمرے کی نیت کے بغیر ہی کی ہیں، یعنی آپ نے نہ تو احرام کی نیت کی اور نہ ہی عمرے کی نیت کی، بلکہ آپ کے والد نے جب آپ کو طواف اور سعی کا کہا تو آپ نے بغیر نیت کے ہی ان کے ساتھ طواف اور سعی کر لی تو یہ فضول عمل ہیں، ان پر [جزا یا سزا]کچھ بھی مرتب نہ ہو گا، آپ کو ان کے کرنے کا ثواب نہیں ملے گا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ اپنے والد کو وضاحت کر دیتیں کہ آپ نے عمرے کی نیت ہی نہیں کی؛ کیونکہ جو کام عبادت سے تعلق رکھتے ہوں انہیں عبادت اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہی کیا جاتا ہے، [بلا نیت عبادت نہیں کیا جاتا]۔

2- اور اگر آپ نے اپنے والد کے کہنے پر عمرہ کرنے کی نیت کر لی تھی اور پھر آپ نے طواف اور سعی کی تو پھر ایسے علمائے کرام کے ہاں آپ کا عمرہ ٹھیک ہے جو طواف کے لئے طہارت کی شرط نہیں لگاتے، یہ موقف احناف اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا ہے اور اسی کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر متعدد اہل علم نے اپنایا ہے، تاہم احناف ایسی صورت میں ایک اونٹ ذبح کرنے کو لازمی قرار دیتے ہیں جبکہ امام احمد ایک بکری ذبح کرنے کو لازمی قرار دیتے ہیں، جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کچھ بھی لازم ہونے کے قائل نہیں ہیں۔

تاہم اگر آپ کسی کو مکہ میں یہ ذمہ داری دے دیں کہ وہ آپ کی طرف سے بکرا ذبح کر دے اور فقرا و مساکین پر تقسیم کر دے، تو یہ آپ کے لئے بہتر ہو گا اور آپ کی عبادت کے لئے محتاط عمل ہوگا۔

جو شخص مکہ میں عمرے کی نیت کے بغیر آئے اور پھر اس کا دل کرے کہ عمرے کر لینا چاہیے تو ایسے شخص کو حدود حرم سے باہر جانا ہو گا، وہ چاہیے تنعیم چلا جائے یا کہیں اور ، پھر وہاں سے احرام باندھ کر آئے؛ لیکن اگر اس نے حدود حرم کے اندر سے ہی احرام باندھ لیا تو اس پر دم لازم ہو گا، دم کے لئے ایک بکری یا بکرا ذبح کر کے فقرائے مکہ پر تقسیم کی جائے گی، چنانچہ اگر آپ نے یہ سب کام عمرے کی نیت سے کیے تھے تو پھر آپ پر دم لازم ہے؛ کیونکہ آپ نے حدود حرم سے باہر جا کر احرام نہیں باندھا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب