الحمد للہ.
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔
اگر یونیورسٹی یا مالی معاونت کرنے والا ادارہ اس رقم کو صرف تعلیمی مقاصد کیلئے خرچ کرنے کی شرط لگاتا ہے تو اس شرط کا التزام ضروری ہے، اس لئے اسے کسی اور جگہ خرچ نہیں کیا جا سکتا ہے چاہے حج ہی کیوں نہ ہو۔
اور اگر تعاون پیش کرنے والا یہ ادارہ اس قسم کی شرط نہیں لگاتا بلکہ ایک طالب علم کو بطور طالب علم ہی تعاون پیش کرتا ہے تو یہ رقم اس کی ملکیت ہے اسے کہیں بھی جائز کام میں خرچ کر سکتا ہے، اور چاہے تو حج کیلئے جمع بھی کرسکتا ہے، ایسے ہی اسٹوڈنٹ قرضہ بھی لے سکتا ہے ۔
لیکن اس قرض میں یہ شرط لازمی ہے کہ سودی قرضہ نہ ہو، کہ اسے لینے سے زیادہ رقم دینی پڑے، چاہے یہ زیادہ رقم بالکل معمولی ہی کیوں نہ ہو، یہ حرام ہی ہوگا۔
اس لئے ہم سائل سے صرف یہ نہیں کہیں گے کہ قرضہ نہ لے چاہے قرضہ حج ہی کیلئے کیوں نہ ہو، بلکہ سائل کیلئے قرضہ لینا ہی جائز نہیں ہے کہ اس کے پاس ادائیگی کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ، وہ قرض کیسے چکائے گا۔
ہاں اگر وہ شخص قرضہ چکا سکتا ہے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ قرضہ لے لے بشرطیکہ سود سے خالی ہو، اگرچہ انسان کیلئے یہی اچھا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو قرضوں کے بوجھ تلے نہ دے۔
سوال نمبر(3974) اور (81465) کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔
واللہ اعلم .