الحمد للہ.
تمام تعریفیں اللہ کیلئےہیں
پہلی بات:
جواب کی ابتدا میں یہ متنبہ کرنا چاہیں گے کہ سائل کی ذکر کردہ روایت ” اللہ تعالی کی اپنی مخلوق سے محبت ؛ والدہ کی اولاد سے محبت سے ستر گناہ زیادہ ہے” کی قرآن و سنت میں کوئی اصل نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالی ظالموں، فاسقوں ، اورکافروں سے محبت نہیں کرتا، تو ہم کیسے اللہ تعالی کیلئے تمام مخلوقات کیلئے عمومی محبت ثابت کریں، حالانکہ اکثریت بھی انہیں لوگوں کی ہے؟! ہاں اللہ تعالی احسان کرنے والوں، پرہیز گار، توبہ کرنے والوں، پاک صاف رہنے والوں، صبر کرنے والوں، توکل کرنے والوں، عدل و انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالی نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کیلئے اپنی محبت ثابت کی ہے، اور یہ لوگ اپنی کیفیت کے مطابق موحدین ہی ہوسکتے ہیں، مشرک نہیں ہوسکتے۔
اس ساری گفتگو کے باوجود اللہ تعالی کے اسماء و صفات میں “الرحمن”اور “الرحیم “شامل ہیں، اللہ کی رحمت غضب سے آگے ہے، اللہ کی جانب سے معافی سزا پر غالب ہے، وہ اپنی مخلوق پر والدہ سے زیادہ رحم کرنے والا ہے:
چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی لیکر آئے، انہی قیدیوں میں ایک خاتون کچھ تلاش کر رہی تھی، اچانک اس نے قیدیوں میں ایک بچے کو دیکھا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اسے اپنا دودھ پلایا، یہ دیکھ کر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے؟ ) ہم نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم!، اگر اسکو اختیار ہو تو کبھی بھی اپنے بچے کو آگ میں نہ پھینکے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس ماں سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے) بخاری (5999) مسلم (2754)
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ محبت اور رحمت میں فرق ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت کا ایک حصہ نازل کیا ہےجسکی بنا پر ساری مخلوق میں رحم پایا جاتا ہے، اسی کی وجہ سے اپنے بندوں کو وہ رزق فراہم کرتا ہے، انہیں گناہوں پر مہلت بھی دیتا ہے، ان کے ساتھ برد باری کا معاملہ کرتا، اور اللہ سبحانہ وتعالی انکے کفر و عناد پر صبر بھی کرتا ہے،یہ سب کچھ دنیا میں ہے، جبکہ آخرت میں اسکی رحمت صرف مؤمنین اور مسلمانوں کیلئے خاص ہوگی۔
دوسری بات:
اور آپ کے سوال” زمین پر غیرمسلموں کی کثرت کیوں ہے؟ ” کا جواب ہے کہ: انہوں نے خود اپنی مرضی سے اسلام کے مقابلے میں کفر اختیار کیا، ہماری مراد میں وہ لوگ یہاں شامل نہیں ہیں جنہیں دعوتِ اسلام نہ پہنچنے کی وجہ سے قابلِ عذر سمجھا گیا ہے، ہم ایک سوال پوچھتے ہیں: ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اسلام کے متعلق مطالعہ کرچکے ہیں،اور انہیں اسلام کی دعوت بھی پہنچ چکی ہے، وہ اپنے ہم مذہب ہزارو ں لوگوں کو دینِ اسلام قبول کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں، کروڑوں افراد اس دین کے ماننے والے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کی واضح نشانیاں اور دلائل اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، آپکی دعوت ، اعجازِ قرآن اور قرآن کی صداقت جان چکے ہیں، کئی مناظرے سن چکے ہیں جس میں اسلام کے مد مقابل مُناظرکو لگام دی گئی اور انکے شبہات کا ازالہ کیا گیا، لیکن اس سب کے باوجود اسلام قبول نہیں کرتے، اپنے لئے اسلام کو دین نہیں مانتے، بلکہ کئی بلین افراد اپنی بنائی ہوئی صلیب کی عبادت پر راضی ہیں، یا خود تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرنے پر قائم ہیں، یا اپنے ہاتھوں سے لیپائی کی ہوئی قبروں پر گرے ہوئے ہیں، یا اللہ وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر ایک گائے کی عبادت میں مصروف ہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ!!
حق بالکل واضح اور عیاں ہے، عظمتِ اسلام پر دلالت کرنے والی نشانیاں لا تعداد اور بے شمار ہیں، جبکہ ان کافروں کے شرک و کفر کو پاش پاش کرنے کیلئے پیش کئے جانے والے دلائل سے کوئی عقلمند اختلاف نہیں کرسکتا ، فطرتِ سلیم اور عقلِ سلیم دونوں اس قسم کی عبادات اور اللہ وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا رب ماننے سے یکسر انکار ی ہیں ، اللہ تعالی نے انکے لئے دلائل کے انبار لگا دئے ہیں، اور ان پر حجت قائم کردی ہے، اسکے باوجود بہت سے لوگ کفر پر بضد ہیں، یہی بات ہے کہ لوگوں کی اکثریت کافر و مشرک پاؤ گے، نہ کہ شکر گزار اور موحّد۔
تیسری بات:
آپکے سوال ” اللہ تعالی کس طرح راضی ہے کہ اسکی اکثر مخلوق جہنم میں جائے؟”کے جواب میں ہم کہیں گے کہ : اللہ تعالی کو انکا کفر کرنا ہرگز پسند نہیں ، نہ ہی ان سے صادر ہونے والے کفریہ کام اسے اچھا لگتا ہے، لیکن انہوں نے خود اپنےلئے اسے پسند کیا، اسی لئے اللہ عز وجل نے اپنی کتابِ کریم میں کافروں کے کفر کوپسند نہ کرنے کی صراحت کی ہے، فرمایا:
( إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ وَلا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ )
ترجمہ: گر تم کفر کرو تو اللہ تعالی تم سے بالکل بے نیاز ہے، وہ اپنے بندوں کیلئے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اسکا شکر ادا کرو تو یہ تمہاری طرف سے اسکا پسندیدہ کام ہے الزمر/ 7
چنانچہ یہ آیت اللہ تعالی کی طرف سے واضح نص ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے کفر پر بالکل راضی نہیں ہے، بلکہ انکے لئے توحید و اسلام ہی پسند کیا، لیکن انہوں نے اپنے لئے کفر کو دین بنا لیا، اور موحدین کے ضمن میں شامل ہونے کا انکار کردیا، اللہ تعالی کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا، اور نہ ہی کفر کرنے پر، بلکہ اللہ تعالی نے حق و باطل، درست غلط، اور اسلام و کفر سب بیان کرتے ہوئے مخلوق کو اختیار دے دیا جسے مرضی اپنا لیں، پھر مسلمانوں کو ثواب کا وعدہ اور کفار کو جہنم کی وعید دی، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاء كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءتْ مُرْتَفَقًا . إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلاً . أُوْلَئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا )
ترجمہ: نیز آپ انھیں کہئے کہ: حق تو وہ ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے (آچکا) اب جو چاہے اسے مان لے اور جو چاہے اس کا انکار کردے۔ ہم نے ظالموں کے لئے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں اسے گھیرے ہوئے ہیں۔ اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو انھیں پینے کو جو پانی دیا جائے گا وہ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم گرما اور ان کے چہرے بھون ڈالے گا۔ کتنا برا ہے یہ مشروب اور کیسی بری آرام گاہ ہے[29]جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو یقینا ہم اس کا اجر ضائع نہیں کرتے جو اچھے کام کرتا ہو [٣0] یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے اور باریک ریشم اور اطلس کے سبز کپڑے پہنیں گے۔ وہاں وہ اونچی مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھیں گے۔ یہ کیسا اچھا بدلہ اور کیسی اچھی آرام گاہ ہے۔
الكهف/ 29 – 31
ایسے ہی ایک اور جگہ فرمایا:
( إِنَّا خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا . إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا . إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلاسِلا وَأَغْلالاً وَسَعِيرًا . إِنَّ الأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا . عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا )
ترجمہ: ہم نے انسان کو (مرد اور عورت کے) مخلوط نطفہ سے پیدا کیا جسے ہم الٹ پلٹ کرتے رہے پھر اسے سننے اور دیکھنے والا بنا دیا [٢]ہم نے یقینا اسے راہ دکھا دی اب خواہ وہ شکر گزار رہے یا ناشکرا بن جائے [3] بلاشبہ ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں ، طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے [4] نیک لوگ شراب کے ایسے جام پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی [٥]وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے۔ الإنسان/ 2 – 6
ایسے اللہ تعالی نے قومِ ثمود کی مثال بیان کی جن کی اللہ تعالی نے راہنمائی کرتے ہوئے رسول کو واضح آیات دیکر بھیجا اسکے باوجود انہوں نے اسلام کی بجائے کفر کو اختیار کیا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ . وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ )
ترجمہ: رہے ثمود تو انہیں ہم نے سیدھی راہ دکھائی مگر انہوں نے راہ ہدایت کے مقابلے میں اندھا رہنا ہی پسند کیا۔ آخر انہیں کڑک کی صورت میں ذلت کے عذاب نےپکڑ لیا جو ان کی کرتوتوں کا بدلہ تھا[17] اور ہم نے ان لوگوں کو (اس عذاب سے) بچا لیا جو ایمان لائے اور (نافرمانی سے) بچتے رہے تھے۔ فصِّلت/ 17 ، 18
یہ قومِ ثمود اور ان تمام اقوام کی مثال ہے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا، اور اپنے رسول کی تکذیب کرتے ہوئے دنیا میں کفر اور آخرت میں جہنم پر راضی ہوگئے، موجودہ دور کے کفار جیسے لوگ پہلے بھی گزرے ہیں، جن کے پاس اللہ کے رسول حق لیکر آئے تھے، اللہ تعالی نے ہر قوم میں رسول بھیجا، جسے وہ صدق اور امانت جیسی عظیم صفات سے پہچانتے تھے، اور اللہ تعالی نے ہر نبی کو ایک نشانی سے بھی نوازا جن کو دیکھ کر بشریت ان پر ایمان لاتی تھی، لیکن اس کے باوجود ان اقوام نے رسولوں کو جادوگر یا بیوقوف کہا!، کفارِ قریش نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معجزے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چاند دو ٹکڑے کر کے دیکھا ئے جس کے ردِّ عمل میں انہوں نے”جادوگر” کا خطاب دیا، اور ان کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ثابت ہوگیا:
( وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا )
ترجمہ: وہ تمام نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان نہیں لائیں گے ۔ الأنعام/ 25
ان اقوام نے رسولوں کی تکذیب ہی پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ انبیاء کو نقل مکانی ، ہجرت پر مجبور کیا اور انکے قتل کیلئے اقدامات کئے، اسی بارے میں قرآنِ کریم نے کہا:
( وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَآ أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ )
ترجمہ: آخر کافروں نے اپنے رسول سے کہہ دیا کہ : ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تمہیں واپس ہمارے دین میں آنا ہوگا” تب ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو یقینا ہلاک کردیں گے۔ إبراهيم/ 13
اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا جواب قرآن نے کچھ یوں بیان کیا:
( فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلاَّ أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )
ترجمہ: تو ابراہیم کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہہ دیا کہ ”اسے مار ڈالو یا جلا ڈالو” پھر اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا۔ یقینا اس واقعہ میں ایمان لانے والوں کے لئے کئی نشانیاں ہیں۔ العنكبوت/ 24
اور اللہ تعالی نے ہمارے نبی مکرم کے بارے میں قرآن مجید فرمایا:
( وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ )
ترجمہ: اور (اے نبی وہ وقت یاد کرو) جب کافر آپ کے متعلق خفیہ تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں، یا مار ڈالیں یا جلا وطن کردیں۔ الأنفال/ 30
اگر یہ حالت ان لوگوں کی ہے جن کی اپنی نسل سے انبیاء کرام کو مبعوث کیا گیا، انہوں نے معجزات کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، تو ان ہندوستانی، چینی، اور یورپی افراد کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟ اگر انکے پاس محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری اور ڈرانے والا بنا کر بھیج دیا جائے؟!
جب مشرکین نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالی ان سے صادر ہونے والا کفر پسند کرتا ہے، اور اگر اللہ کو پسند نہ ہوتا تو انہیں کفر سے روک دیتا ، اللہ تعالی نے انکی اس بات کو یکسر رد کردیا، اور بیان کیا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں سب خواہشات کی پیروی اور گمراہ آباء و اجداد کی اتباع ہے، فرمایا:
( وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَحْنُ وَلا آبَاؤُنَا )
ترجمہ: یہ مشرکین کہتے ہیں: اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اللہ کے سوا کسی چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے آباء واجداد ۔ النحل/ 35
پھر انکا رد کرتے ہوئے فرمایا:
( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ )
ترجمہ: ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جو انھیں یہی کہتا تھا) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ پھر کچھ ایسے لوگ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دے دی اور کچھ ایسے تھے جن پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ النحل/ 36
شیخ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس آیت کریمہ میں وضاحت کردی کہ اللہ تعالی کو ان سے صادر ہونے والا کفر پسند نہیں تھا، اور اس نے ہر امت میں رسولوں کو بھیجا، اور اس رسول نے انہی کی زبان میں کہا: صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، اور طاغوت سے بچو، یعنی اللہ کے سوا ہر معبودِ باطل سے دور رہو، پھر اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو اپنی عبادت کی توفیق بھی دی، اور بعض لوگوں پر گمراہی غالب آگئی، یعنی کفر و بد بختی ان پر ثابت ہوگئی، سورہ انعام کی آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا: ( قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ترجمہ: آپ ان سے کہئے کہ اللہ کی حجت کامل ہے لہذا اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا الأنعام/ 149یہ اللہ تعالی ہی کی شاہانہ مرضی ہے وہ جسے چاہے ہدایت دے اور سیدھے راستے کی توفیق دے، یعنی جسے ہم ہدایت دے دیں اور توفیق سے نوازیں: تو یہ ہمارا اس پر فضل اور رحم ہے، اور جسے ہدایت نہ دیں : یہ ہماری حکمت اور عدل کا تقاضا ہے؛ اس لئے ہدایت دینا ہم پر قرض یا واجب نہیں تھا کہ جسکا وہ ہم سے مطالبہ کریں ، بلکہ اگر ہم نے ہدایت دی تو یہ ہمارا فضل ہے اور اگر نہ دیں تو یہ ہمارا عدل ہے” انتہی، “اضواء البیان” (7/95-96)
چوتھی بات:
سائل نے اپنے سوال میں کہا: ” کیا یہ ٹھیک ہے کہ جنت میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا، خاص طور پر اہل سنت؟ ” تو اس میں کچھ تفصیل ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جنت میں صرف مسلمان ہی جنت میں جائیں گے؛ اس لئے کہ اسلام نے سابقہ تمام ادیان کو منسوخ کر دیا ہے، اور اللہ کی جانب سے تمام لوگوں پر اس دین میں داخل ہونا ضروری ہے، پھر یہ بھی ان کیلئے واضح کردیا کہ اس دین کے علاوہ کوئی دین قابلِ قبول نہیں ہے، اور جو بھی کسی اور دین کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے پیش ہوا وہی خسارے میں ہوگا، جسکے بارے میں قرآن مجید میں فر مایا:
( وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ )
ترجمہ: اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔ آل عمران/ 85
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ لوگوں میں اعلان کردو : (جنت میں صرف اور صرف مسلمان ہی داخل ہوگا) بخاری (3062) مسلم (178)
جبکہ سابقہ امتوں سے وہی جنت میں جائے گا جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی ، یہی لوگ اپنے زمانے کے مؤمن کہلائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ )
ترجمہ: جو لوگ (بظاہر) ایمان لائے ہیں اور جو یہودی ہیں یا عیسائی یا صابی (بے دین) ہیں، ان میں سے جو بھی (فی الحقیقت) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور عمل بھی اچھے کرے تو ایسے ہی لوگوں کو اپنے رب کے ہاں سے اجر ملے گا۔ اور ان پر نہ تو کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ البقرة/ 62
اور یہ کہنا کہ جنت صرف اور صرف اہل سنت ہی کیلئے ہے اس طرح تعیین کے ساتھ کہنا درست نہیں ہے، اہل علم میں سے کوئی بھی اس طرح کی بات کرنے کی جسارت نہیں کرتا؛ بلکہ امتِ محمدیہ یعنی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا وہ سب جنت میں داخل ہونگے، ان میں سے وہی جنت کے داخلے سے محروم ہوگا جو مرتد ہوگیا، اور اسلام سے کلی طور پر خارج ہوگیا، جبکہ شریعت کی مخالفت اور اہل سنت سے جھگڑا کرنے والے اہل بدعت کا حال دیگر موحد نافرمانوں کی طرح ہوگا، یہ لوگ اللہ کے مشیئت کے تحت ہونگے؛ اگر وہ چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو انہیں معاف کردے، پھر آخر کار عقیدہ توحید پر مرنے والوں نے جنت میں ضرور جانا ہے۔
ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہوگا جو کچھ نافرمانیاں کر بیٹھے، یا کسی بدعت میں مبتلا ہوگئے، لیکن عمومی طور پر اہل سنت کے دائرے میں رہے؛ یہ لوگ بھی اللہ کی مشیئت کے تحت ہونگے، اگر وہ چاہے تو انہیں عذاب دے یا چاہے تو معاف کر دے، اور اگر کوئی شخص سنت پر عمل پیرا ہونے کا شیدائی تھا، سنت کا دفاع بھی کرتا تھا، اسے سیکھنے کیلئے کوشش بھی کرتا تھا، ایسے شخص کیلئے امیدیں زیادہ ہیں ، اور اللہ کے عذاب اور ناراضگی بچنے کی زیادہ توقع ہے۔
پانچویں بات:
جس شخص نے تہتر (73)فرقوں والی حدیث میں مذکور بہتر (72)فرقوں کے جہنم میں جانے کے تذکرے سے یہ سمجھا کہ وہ سب کے سب ابدی جہنمی ہیں، یہ اسکی غلطی ہے، اور مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت ہے، ان فرقوں میں گمراہی کے وجود، اور جہنم کی وعید کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جس شخص نے بہتر (72) فرقوں کے بارے میں یہ کہا کہ وہ سب کافر ہیں اور خارج از اسلام ہیں، ایسا شخص کتاب وسنت اور صحابہ کرام کے اجماع کا مخالف ہے، بلکہ ائمہ اربعہ کے ساتھ ساتھ دیگر ائمہ کا بھی مخالف ہے؛ ان میں سے کسی نے بھی بہتّر (72) فرقوں کی تکفیر نہیں کی”انتہی، “مجموع الفتاوی” (7/218)
مخالفین کی تکفیر کرنا اہل بدعت اور گمراہ لوگوں کا شیوہ ہے، اہل سنت و الجماعت کا منہج نہیں ہے، اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“خوارج نے سب سے پہلے مسلمانوں کی تکفیر کی، انہوں نے کبیرہ گناہوں کی وجہ سے کفر کا حکم لگایا، پھر جو انکے اس نظریے کی مخالفت کرےوہ اسے بھی کافر قرار دیتے ہوئے اسکی جان، اور مال کو حلال سمجھتے ہیں، اہل سنت والجماعت کتاب وسنت کی اتباع کرتے ہیں، اوراللہ اور اسکے رسول کی اطاعت اور حق کی تلاش کرتے ہوئے مخلوق پر بھی رحم کرتےہیں” انتہی، “مجموع الفتاوی” (3/279)
پھر انہوں نے بہتّر (72) فرقوں کے بارے میں کہا:
“ان فرقوں میں سے بعض آپس میں ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں” انتہی، “مجموع الفتاوی”(7/218)
مزید تفصیل کیلئے بہتر(72) فرقوں والی حدیث کی مختلف روایات اور اسے سے متعلقہ فہم جاننے کیلئے سوال نمبر (90112 )کا جواب ملاحظہ کریں۔
اہل سنت اور فرقہ ناجیہ کی صفات کے بارے میں جاننے کیلئے سوال نمبر ( 206 )کے جواب بھی دیکھیں۔
چھٹی بات:
یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ وہ ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دے گا جسے اسلام کی دعوت نہیں پہنچی، چنانچہ جو لوگ ہمارے زمانے میں یا اس سے پہلے تھے اور انہیں اسلام کے بارے میں خبر تک نہ ہوئی تو ان لوگوں کا قیامت کے دن امتحان لیا جائے گا، اور اس کے بارے میں ہم تفصیلی گفتگو سوال نمبر ( 1244 ) کے جواب میں کر آئے ہیں۔
واللہ اعلم .