الحمد للہ.
نماز میں التفات کی کئی اقسام ہیں:
1-پورا سینہ قبلہ رخ سے کسی اور جانب کر لینا، یہ التفات نماز باطل کر دیتا ہے؛ کیونکہ قبلہ رخ ہونا نماز کے صحیح ہونے کی شرط ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (65853 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
2-صرف سر اور آنکھوں سے التفات کرنا، کہ پورا جسم قبلہ رخ ہی رہے، تو یہ التفات مکروہ ہے، البتہ کسی ضرورت کی بنا پر کرے تو مکروہ بھی نہیں ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص بغیر ضرورت کے کرے تو اس کی نماز کا ثواب کم ہو جائے گا، تاہم نماز صحیح ہو گی باطل نہیں ہو گی۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (27 /109) میں ہے کہ:
"نماز میں التفات کے مکروہ ہونے پر فقہائے کرام کے ہاں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز میں التفات کے متعلق پوچھا تو آپ نے بتلایا: (یہ ڈاکہ ہے جو شیطان بندے کی نماز پر ڈالتا ہے۔) بخاری: (751) نیز یہ کراہت بغیر ضرورت اور عذر کی صورت میں ہے، لیکن اگر کوئی ضرورت ہو مثلاً: نمازی کو اپنی جان میں یا مال میں نقصان کا خدشہ تو پھر مکروہ نہیں ہے۔" ختم شد
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (7 /27)میں ہے کہ:
"نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا مکروہ ہے ، یہ نماز کا ثواب کم کر دیتا ہے، تاہم نماز میں ادھر ادھر دیکھنے والے پر نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوتا؛ کیونکہ دیگر احادیث میں ضرورت پڑھنے پر ادھر ادھر دیکھنا ثابت ہے ، تو اس سے معلوم ہوا کہ اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔" ختم شد
متعدد احادیث ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر نماز میں التفات کا جواز ملتا ہے، جیسے کہ صحیح مسلم: (431) میں ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیمار ہو گئے تو ہم نے آپ کے پیچھے نماز ادا کی آپ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تکبیر سنا رہے تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہماری طرف دیکھا ، ہم کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ ہم بیٹھ جائیں، تو پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا میں نماز بیٹھ کر ادا کی۔)
اسی طرح سنن ابو داود: (916) میں سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (نماز فجر کے لیے اقامت کہہ دی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے لگے، اور آپ اسی دوران گھاٹی کی جانب التفات بھی کرتے تھے۔)امام ابو داود کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھاٹی کی جانب ایک گھڑ سوار کو پہرہ دینے کے لیے بھیجا تھا۔
اس حدیث کو البانیؒ نے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" نماز میں وسوسہ آنے پر شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے التفات ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ بہت زیادہ ضرورت ہو تو صرف گردن کو موڑنا مستحب بھی ہو گا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (11 /130)
3-التفات کی ایک تیسری قسم بھی ہے، یعنی نماز کے دوران دل میں نماز سے ہٹ کر خیالات آئیں کہ انسان انہی خیالات میں کھو جائے اور نماز کی جانب توجہ نہ رہے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"واضح رہے کہ نماز میں التفات دو طرح کا ہوتا ہے:
پہلی قسم: جسمانی اور حسی التفات یعنی سر کو ادھر ادھر گھما کر دیکھنا۔
دوسری قسم: معنوی اور قلبی التفات، یعنی نماز میں آنے والے خیالات ۔
اس آخری بیماری سے کوئی بچ نہیں سکتا، اس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل بھی ہے، بہت کم لوگ اس سے سلامت رہتے ہیں، اس سے نماز میں کمی پیدا ہوتی ہے، اور اگر یہ التفات تھوڑی دیر کے لیے پیدا ہو تو قابل برداشت ہے، لیکن یہ تو آغاز نماز سے لے کر انتہائے نماز تک جاری رہتا ہے، اسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان لاگو ہوتا ہے کہ: شیطان بندے کی نماز پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (3 /70)
واللہ اعلم