الحمد للہ.
شادى كى تقريب اور اس كى دعوت دينا اور سرور خوشى كا اظہار كرنا يہ عقد نكاح كو مشہور اور اعلان كرنے كےمترادف ہے، اور شادى كى تكميل اور مستحبات ميں شامل ہوتى ہے، ليكن شادى كى شروط اور واجبات ميں سے نہيں.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" نكاح كا اعلان كرو "
مسند احمد حديث نمبر ( 15697 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار ديا ہے.
اور مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اعلان سے مراد يہ ہے كہ لوگوں كے مابين اس نكاح كو پھيلايا جائے كہ فلاں شخص كا فلاں عورت كے ساتھ نكاح ہوا ہے اور اس كى اشاعت كى جائے " انتہى
ديكھيں: فيض القدير ( 2 / 14 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نكاح كا اعلان كرنا مستحب ہے، اور اس ميں دف بجانا مستحب ہے تا كہ مشہور ہو جائے اور لوگ نكاح كو جان ليں " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 9 / 467 ).
رخصتى كى تقريب منعقد كرنا اعلان نكاح كے سب سے واضح مظہر ميں شامل ہوتا ہے، اور آپ كى والدہ كا شادى كى تقريب منعقد كرنے كا مطالبہ كرنا بھى ايسے ہى ايك رغبت اور چاہت ہے جو ہر ماں اپنى بيٹى كى خوشى كےموقع پر منانا چاہتى ہے، اور اس كے ساتھ اس ميں لوگوں كى عادت اور رسم و رواج كا خيال بھى ركھا جانا ہے.
اس ليے آپ چھوٹى سے تقريب منعقد كر ليں چاہے خاندان والوں كو ہى مدعو كريں اور اس ميں ايك معقول رقم خرچ كريں زيادہ نہيں، اور اسراف و فضول خرچى سے اجتناب كرتے ہوئے مال ضائع مت كريں، اور اس طرح اپنى والدہ كو بھى راضى كر كے نكاح كا اعلان بھى كر سكتى ہيں.
اور اگر آپ كے ليے ايسا كرنا مشكل ہو تو پھر آپ كے ليے رخصتى كى تقريب منعقد كيے بغير بھى اپنے خاوند كے ساتھ جا كر رہنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ عقد نكاح تو خاوند اور بيوى كى رضامندى اور عورت كے ولى كى موافقت اور گواہوں كى موجودگى ميں ہوتا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 2127 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ہمارى آپ كو يہى نصيحت ہے كہ اپنى والدہ كو راضى اور مطئمن كرنے كے بغير خاوند كے ساتھ مت جائيں.
واللہ اعلم.