الحمد للہ.
"فطرانہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہر مرد، عورت، چھوٹے، بڑے، آزاد، اور غلام پر فرض کیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے بارے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ لوگوں کے نماز کیلئے نکلنے سے قبل ادا کیا جائے، چنانچہ جس شخص کو اپنے اردگرد فقراء نہیں ملتے تو وہ کسی قریبی دوسری آبادی کے فقراء کو پہنچا دے، اور نماز عید سے قبل ادا کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ عید کی نماز کے بعد تک فطرانہ مؤخر کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ اس لئے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مخالف ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ لوگوں کے عید نماز کیلئے نکلنے سے قبل ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اور فرمایا:
(جس شخص نے نماز سے قبل فطرانہ ادا کردیا تو یہ مقبول فطرانہ ہے، اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا)
اس لئے سائل محترم کیلئے ضروری ہے کہ عید نماز سے قبل ادا کرنے کا اہتمام کرے، چاہے عید سے ایک ، دو ، یا تین دن پہلے ہی ادا کردے، چنانچہ اٹھائیس، انتیس یا تیس تاریخ کو فطرانہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما فطرانہ عید کے دن سے دو دن قبل ادا کیا کرتے تھے، اور بسا اوقات عید سے تین دن قبل بھی ادا کر دیتے تھے، اسی طرح دیگر صحابہ کرام کیا کرتے تھے۔
مقصد یہ ہے کہ : اٹھائیس تاریخ سے انسان فطرانہ اداکرنا شروع کر کےعید کی نماز تک جاری رہ سکتا ہے، لیکن آپکے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ آپ عید کی نماز کے بعد تک فطرانہ مؤخر کریں، اور اگر آپکے علاقے میں فقراء نہیں ہیں تو کسی اور جگہ جاکر فقراء تلاش کریں، چاہے اس کے لئے سفر ہی کیوں نہ کرناپڑے"انتہی
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ .