سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

فرمانِ باری تعالی : (إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ) کا معنی اور مفہوم

سوال

سوال: سورہ توبہ کی آیت نمبر 37 میں حرام کردہ " اَلنَّسِيءُ " [حرمت والے مہینوں میں تقدیم و تاخیر]سے کیا مراد ہے؟ اور اس کے حرام ہونے سے پہلے جزیرۂِ عرب میں اس کی کون کونسی اقسام موجود تھیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فرمانِ باری تعالی:
(إنما النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَاماً وَيُحَرِّمُونَهُ عَاماً لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ)
ترجمہ:   [التوبہ: 37]

اس آیت کریمہ میں " اَلنَّسِيءُ " سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں اہل علم کے متعدد اقوال ہیں، جن میں سے مشہور ترین درج ذیل  ہیں:

1- عرب لوگ  حرمت والے مہینوں کی حرمت تبدیل کرتے رہتے تھے، چنانچہ  ضرورت پڑنے پر اپنی مرضی سے کسی بھی حرمت والے مہینے کو غیر حرمت والا قرار دے دیتے تھے، تاہم قمری مہینوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرتے تھے؛ لہذا بسا اوقات ماہِ محرم کو غیر حرمت والا قرار دیکر اس مہینے میں قتال جائز سمجھتے؛ اس کی وجہ یہ تھی کہ ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم تین ماہ مسلسل حرمت والے  ہیں، [اور اتنے دن ان کیلئے لڑائی جھگڑوں سے رکنا مشکل امر تھا] اس لیے محرم کی حرمت صفر میں منتقل کر دیتے تھے، گویا کہ حرمت والے مہینوں کی تعداد انہوں نے پوری  کر دی۔

یہ صورت صحیح  اور مشہور ترین ہے، نیز آیت کے مفہوم سے قریب ترین بھی یہی ہے، جیسے کہ یہ بات متعدد سلف صالحین سے صراحت کیساتھ منقول ہے، یہی موقف ابن کثیر رحمہ اللہ سمیت  دیگر محققین کا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات آیت کے معنی: (يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا)  اور (لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ الله) کیساتھ مطابقت بھی رکھتی ہے۔

اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی  "اَلنَّسِيءُ" کا مطلب یہی بیان کیا ہے۔

2- اس وقت کے عرب بسا اوقات ماہِ محرم  کو صفر کیساتھ ملا کر دونوں کو غیر حرمت والا مہینہ قرار دیتے اور ان دونوں مہینوں کو صفر کے نام سے موسوم کرتے ، پھر آئندہ سال  صفر کو ماہِ محرم کیساتھ ملا کر دونوں کو حرمت والا مہینہ قرار دیتے اور دونوں مہینوں کو محرم کے نام سے موسوم کرتے تھے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے مطابق یہ صورت بہت ہی تعجب خیز ہے۔

3- اس وقت کے عرب لوگ بسا اوقات ماہ محرم کو حلال سمجھتے تھے اور اگر ضرورت پڑتی تو صفر کے مہینے کو بھی حلال قرار کر ربیع الاول  کو حرمت والا مہینہ قرار دیتے۔
امام احمد کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے۔

جزیرۂِ عرب میں " اَلنَّسِيءُ " کی کونسی قسم  عہداسلام میں پائی گئی اور اسلام نے اسے حرام قرار دیا؟ اس کے جواب میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: "السیرۃ" میں اس بارے میں بہت ہی مفید اور اچھی گفتگو کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ: "اہل عرب کیلئے سب سے پہلے حرمت والے مہینوں میں تقدیم و تاخیر کرتے ہوئے اللہ کے طرف سے مقرر کردہ حرمت والے مہینوں کو حلال سمجھنے کا عمل "قلمَّس" نے کیا، اس شخص کا پورا شجرہ نسب یہ ہے:
حذیفہ  بن عبد مُدْرِكہ  فُقَیم بن عدی  بن عامر بن ثعلبہ بن حارث بن مالك بن کنانہ بن خُزَيمہ بن مدْرِكہ  بن الیاس بن مُضَر بن نزار بن مَعدَّ بن عدنان  ہے۔

اس کے بعد قلمس  کے بیٹے عباد نے یہ کام کیا، پھر عباد کے بیٹے قلع نے اسے آگے بڑھایا، پھر قلع کے بیٹے امیہ نے اس کا کو سنبھالا، پھر امیہ کے بیٹے عوف نے ، اور آخر میں عوف کے بیٹے ابو ثمامہ جنادہ بن عوف  نے اسے سر انجام دیا اور اسی کے زمانے میں اسلام ظہور پذیر ہوا۔

ہوتا یوں تھا کہ جب اہل عرب حج سے فارغ ہوتے تھے سب اس پاس جمع ہوتے، تو وہ کھڑے ہو کر خطاب کرتا، اور رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ کو حرمت والا مہینہ قرار دیتا، جبکہ محرم کو ایک سال حرمت والا اور آئندہ سال محرم کی بجائے ماہِ صفر  کو حرمت والا قرار دیتا، تا کہ اللہ کی تعالی کی طرف سے مقرر کردہ حرمت والے مہینوں کی تعداد پوری بھی ہو جائے، اور اپنی مرضی بھی چل جائے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے قومی شاعر عمیر بن قیس المعروف "جزل الطعان" بڑے فخر سے شعر کہتا تھا:
لقد علمت معد أن قومي كرام الناس إن لهم كراما 
ألسنا الناسئين على معد شهور الحل نجعلها حراما 
وأي الناس لم يدرك بذكر وأي الناس لم يعرف لجاما

یعنی: قبیلہ معد کو میری قوم کی عظمت کا اعتراف ہے کہ میری قوم ہی معزز قوم ہے۔

کیا ہم  معد  کیلئے حرمت والے مہینوں میں تقدیم و تاخیر نہیں کرتے؟

اب وہ کون سے لوگ ہیں جنہیں ابھی تک ہماری شان کا علم نہیں ہے؟ اور کن لوگوں کو لگام کا علم نہیں؟"

مزید کیلئے دیکھیں: "العذب النمير من مجالس الشنقيطي في التفسير" (5 / 439) ،  "تفسیر ابن كثیر" (4/ 144)  اور (تفسیر طبری 14 / 235)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب