سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ساس كے ساتھ رہنے سے تنگ ہونے والى خاتون كا طلاق طلب كرنا

167997

تاریخ اشاعت : 17-09-2011

مشاہدات : 6780

سوال

ميں ايك طويل عرصہ سے اپنى ساس اور نندوں كے ساتھ رہ رہى ہوں، ابتدا ميں تو مجھے علم نہ تھا كہ ميں اپنى ساس اور نندوں كے ساتھ رہوں گى، ليكن مجبورا ناپسند كرتے ہوئے بھى مجھے اس پر راضى ہونا پڑا، اور ميں نے كئى برس تك ساس اور نندوں كے ساتھ رہنے ميں صبر كيا اور اس عرصہ ميں ان سے كوئى معاونت بھى حاصل نہيں كى.
نندوں اور ميرے درميان سمجھوتہ نہ ہونے كے باوجود بھى ميں سب كو راضى كرنے كى كوشش كرتى رہى، ابتدا ميں تو ميرا خاوند بھى اپنى والدہ كے ساتھ رہ كر اور ميرى خدمت كے ذريعہ والدہ كو راضى كرنے كى كوشش كرتا رہا حالانكہ گھر بہت چھوٹا تھا اور اولاد زيادہ تھى.
ميں چھوٹے بچوں كے ساتھ ايك كمرہ ميں اور خاوند برآمدہ ميں اور باقى بچے دوسرے كمرہ ميں سوتے ہيں، اور حالت يہ ہے كہ بچہ بچى كے ساتھ اور ساس اور ننديں سب ايك كمرہ ميں سوتى ہيں، ميرى كوئى خاص زندگى نہيں اور نہ ميرے اندر شادى شدہ ہونے اور خاوند اور بچوں كى ديكھ بھال كرنے كا كوئى احساس پايا جاتا ہے، ميرا خاوند اپنى والدہ سے دور نہيں ہونا چاہتا چاہے رہائش قريب ہى ہو پھر بھى نہيں چاہے اس كے مقابلہ ميں اسے مجھے بھى چھوڑنا پڑے.
ميرى ہر وقت خاوند سے يہى لڑائى اور جھگڑا رہتا ہے كہ ميں اس طرح كے ماحول ميں نہيں رہ سكتى، اور عليحدہ رہائش كا مطالبہ كرتى رہتى ہوں تا كہ ہمارے تعلقات صحيح ہوں، ليكن وہ نہيں مانتا، اب تو ميں طلاق كا بھى سوچنے لگى ہوں، اور سوچ رہى ہوں كہ اپنے والد كو بھى اپنى مشكلات كے متعلق بتاؤں تا كہ وہ اسے حل كرنے كے ليے دخل اندازى كريں ليكن صرف اولاد اور اپنى ساس كى بنا پر تردد ميں ہوں كيونكہ ميرى ساس ہمارے قريبے رشتہ داروں ميں سے ہے.
ميں نفسياتى مريض بن چكى ہوں اور اس زندگى كى تنگى كى وجہ سے چڑچڑا پن آ چكا ہے مجھے سمجھ نہيں آ رہى كہ ميں كيا كروں ؟ ميرا خاوند اس معاملہ كو اہميت ہى نہيں ديتا اور نہ ہى مجھے اس محروميت كے عوض ميں كوئى خوشى ديتا ہے كہ كوئى اچھى كلام اور بات كرے جو مجھے صبر دلانے كا باعث بنتا ہو، اس كے ليے يہى اہميت ركھتا ہے كہ ميں كسى طرح اس كى والدہ كو راضى ركھوں، اور اس كى ديكھ بھال كروں، حالانكہ ميرا خاوند ديندار ہے، ميرا خاوند اپنى والدہ كو بہت چاہتا ہے، ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ اس حالت ميں شرعى حكم كيا ہے، اور كيا اس مسئلہ ميں ميرا والد دخل اندازى كر سكتا ہے، ميرے والد صاحب بہت غصہ والے ہيں، ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آيا ميرا عليحدہ رہائش طلب كرنا چاہے قريب ہى ہو خاوند كے ليے والدہ كى نافرمانى كا باعث تو نہيں ہوگا ؟
ميرى نندوں نے ميرى جوانى اور صحت لوٹ لى اور برباد كر دى ہے، اور ميرے خاوند اور بچوں كے ساتھ ميرى زندگى ميں شريك بن چكى ہيں، مجھے كوئى حل بتائيں، اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے علم و عمل ميں بركت فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيوى اور خاوند كى حالت كے مناسب رہائش ميں بيوى كو ركھنا بيوى كے خاوند كے ذمہ واجب حقوق ميں شامل ہوتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جہاں تم رہتے ہو تم انہيں ( بيويوں كو ) اپنى استطاعت كے مطابق رہائش دو اور انہيں تنگ كرنے كے ليے ضرر مت دو الطلاق ( 6 ).

خاوند كو يہ نہيں چاہيے كہ وہ بيوى كو اپنے گھر والوں كے ساتھ ايك ہى رہائش ميں ركھے، چاہے اس رہائش ميں اس كى والدہ يا بہنيں يا كوئى اور رشتہ دار رہتا ہو، اور نہ ہى وہ بيوى كو اس كى سوكن كے ساتھ ايك ہى رہائش ميں ركھے بلكہ خاوند پر واجب ہے كہ وہ بيوى كو عليحدہ اور مستقل رہائش لے كر دے جو بيوى كے رہنے اور سونے كے ليے مناسب ہو جس ميں باوچى خانہ اور ليٹرين وغيرہ جيسى بنيادى ضروريات موجود ہوں.

يہ تو معلوم اور مشاہدہ ميں ہے ايك ہى رہائش ميں كئى گھرانوں كے رہنے سے گھر كا سكون اور خصوصيت بربادى ہو جاتى ہے، اور پھر خاوند اور بيوى كو بہت شديد نقصان ہوتا ہے، خاوند اور بيوى كا آپس ميں ايك دوسرے سے فائدہ و لطف اٹھانے سے محروم رہتے ہيں جو وہ ايك عليحدہ اور مستقل رہائش ميں حاصل كر سكتے ہيں اور انہيں وہ سكون بھى حاصل نہيں ہوتا.

يہ ايسى چيز ہے جس كى بنا پر محبت و مودت ميں كمى پيدا ہو جاتى ہے، بلكہ بعض اوقات تو بالكل ختم ہى ہو جاتى ہے لا حول و لا قوۃ الا باللہ .

اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ شرعى مقاصد اور عقل كے حكم كو سمجھے اسے والدين كے متعلق صرف جذبات ميں ہى نہيں رہنا چاہيے كہ وہ ان كے ساتھ ہى زندگى گزارے.

بلكہ اگر وہ اپنى بيوى كے ساتھ قريب ہى رہائش حاصل كرتا ہے تو جتنا چاہے وہ والدہ رشتہ داروں كے ساتھ وقت گزار سكتا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ وہ اپنى بيوى اور اپنى گھريلو زندگى كو بھى محفوظ بنا سكتا ہے، اس طرح دونوں مصلحتوں كو اكٹھا كر لےگا.

مزيد آپ سوال نمبر ( 7653 ) اور ( 85162 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ بيوى كا اپنے خاوند كے رشتہ داروں اور ساس سسر كى خدمت كرنا بيوى پر واجب نہيں؛ بلكہ بيوى پر تو صرف اكيلے خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے.

ليكن اگر بيوى ساس وغيرہ كى خدمت كرتى ہے تو يہ خاوند كے ساتھ حسن سلوك ميں شامل ہوگا، اور اس ميں خاوند كى عزت ہوگى تو يہ بيوى كى جانب سے ايك اچھا كام ہے، اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كرتا ہوا اس كے اس كام كو سراہے اور شكر ادا كرے كيونكہ جو لوگوں كا شكر ادا نہيں كرتا وہ اللہ تعالى كا شكر ادا نہيں كر سكتا.

مزيد آپ سوال نمبر ( 120282 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ اس معاملہ انتظار كريں اور اپنے خاوند كو بڑے ٹھنڈے مزاج اور سكون كے ساتھ سمجھانے كى كوشش كريں، اور اس كے سامنے اس معاملہ ميں شرعى حكم واضح كريں، اس كے ليے آپ كے ليے اوپر بيان كردہ فتاوى جات سے سہارا لينے ميں بھى كوئى حرج نہيں جن كے حوالہ جات ہم سوالات كے نمبر دے كر بيان كر چكے ہيں جب آپ كا خاوند دين پر عمل كرنے والا ہے تو وہ اس پر عمل كريگا.

اور اگر آپ اكيلى اسے قائل نہ كر سكيں تو پھر آپ كے ليے اس مشكل كو حل كرنے ميں اپنے گھر والوں سے بھى مدد لينے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن يہ اس صورت ميں ہے جب آپ اكيلى اسے حل كرنے سے عاجز ہوں، اور اس كے ليے بھى شرط يہ ہے كہ آپ اپنے رشتہ داروں كو نصيحت كريں كہ دخل اندازى حكمت كے ساتھ بہتر طريقہ سے كريں، اور نرمى اختيار كرتے ہوئے حل كرنے كى كوشش كريں.

كيونكہ نرمى ہر چيز كو خوبصورت بنا ديتى ہے، اور جس چيز سے نرمى جاتى رہے وہ بدصورت اور عيب دار ہو جاتى ہے.

اس كے ليے لازم نہيں كہ اس معاملہ ميں آپ كے والد ہى دخل اندازى كريں، بلكہ آپ اپنے رشتہ داروں ميں كسى ايسے شخص كو اختيار كريں جو سب سے زيادہ حكمت ركھتا ہو اور سب سے بہتر عقل و دانش كا مالك ہو، اور آپ كے خاوند كے ساتھ افہام و تفہيم كے زيادہ قريب ہو.

رہا مسئلہ طلاق طلب كرنے كا تو آپ اس كے متعلق مت سوچيں، خاص كر جب آپ كى اولاد بھى ہے، ليكن اگر معاملہ نہيں سلجھتا اور آپ كے تعلقات بہت كشيدہ ہو جائيں كہ آپ اس حالت ميں صبر نہ كر سكتى ہوں، ہم يہى اميد ركھتے ہيں كہ آپ ان شاء اللہ طلاق كا نہيں سوچيں گى.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كا معاملہ آسان فرمائے، اور آپ كے خاوند كى اصلاح فرمائے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كرے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب