سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایسی چیز فروخت کرنا جو ابھی ملکیت میں نہیں ہے۔

سوال

اس طریقہ تجارت کا کیا حکم ہے؟ مثلاً: ایک شخص 100 دینار میں موبائل فروخت کرنے کا اعلان لگاتا ہے، میں یہ اعلان انٹرنیٹ پر لگا دیتا ہوں، وہاں ایک شخص مجھ سے یہی موبائل 90 میں خریدنے کی پیش کش کرتا ہے، تو میں اعلان لگوانے والے سے بات کرتا ہوں اور اس سے 80 دینار میں فروخت کرنے کی بات کرتا ہوں، تو وہ میری آفر قبول کر لیتا ہے، پھر میں 90 دینار قیمت لگانے والے شخص کے پاس جاتا ہوں اور اس کی آفر قبول کر لیتا ہوں، پھر جا کر 80 میں خرید کر اسے 90 دینار میں فروخت کر دیتا ہوں، اس طرح مجھے 10 دینار بچ جا تے ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر سائل ریٹ لگانے والے شخص کو موبائل تبھی فروخت کرتا ہے جب سائل اس موبائل کو خرید کر اپنے قبضے میں کر لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ طریقہ تجارت ٹھیک ہے۔

لیکن اگر موبائل کی فروختگی موبائل خریدنے اور قبضے میں لینے سے پہلے کر دے تو تجارت کا یہ طریقہ درست نہیں ہے؛ کیونکہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ایسی چیز فروخت کرے جس کا وہ مالک ہی نہیں ہے، نہ ہی اس کے لیے یہ جائز ہے کہ خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کرے، جیسے کہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا: ایک شخص مجھ سے آ کر ایسی چیز طلب کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے، کیا میں اسے بازار سے خرید کر فروخت کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اسے فروخت مت کرو) ترمذی: (1232) ، نسائی: (4613) ، ابو داود: (3503) ، ابن ماجہ: (2187) ، مسند احمد: (14887)، نیز البانی نے اسے "إرواء الغليل" : (1292) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا طاؤوس ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ کوئی شخص غلہ اپنے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کر دے۔ طاؤوس کہتے ہیں: میں نے ابن عباس سے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ درہم کی درہم کے بدلے بیع ہے اور غلہ تو ادھار ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری: (2132) اور مسلم : (1525) نے روایت کیا ہے۔

اس کی وضاحت ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری" (4/349) میں لکھتے ہیں کہ:
"اس کا مطلب یہ ہے کہ طاؤوس نے اس ممانعت کا سبب جاننے کے لیے سوال کیا تو انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جس وقت مشتری غلہ اپنے قبضے میں لینے سے پہلے ہی فروخت کر دے اور ابھی تک غلہ بائع کے ہاتھ میں ہو تو یہ ایسے ہی ہوا کہ درہم کی درہم کے عوض فروخت ہو رہی ہے۔ اس کی مزید وضاحت صحیح مسلم کے ہاں سفیان عن ابن طاووس کی روایت میں ملتی ہے کہ: طاووس کہتے ہیں: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: یہ منع کیوں ہے؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم یہ نہیں دیکھ رہے کہ وہ بطور قیمت سونا تو وصول کر رہے ہیں لیکن غلہ موجود نہیں ہے، یعنی مثال کے طور پر اگر غلہ 100 دینار کا خریدا، اور مشتری نے 100 دینار بائع کو تھما دیے لیکن غلہ ابھی اپنے قبضے میں نہیں لیا، اور مشتری نے کسی اور کو آگے وہی غلہ 120 میں فروخت کر دیا اور 120 دینار وصول بھی کر لیے حالانکہ ابھی غلہ تو پہلے بائع کے پاس ہے، تو یہ ایسے ہی ہوا کہ جیسے 100 دینار اس نے 120 دینار کے عوض فروخت کر دئیے ہیں۔ اس تفصیل کی بنا پر یہ ممانعت صرف غلے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔اسی وجہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں یہی سمجھتا ہوں کہ ہر چیز کا یہی حکم ہے۔ پھر ان کے اس موقف کی تائید سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا کہ سامان تجارت وہیں فروخت کر دیا جائے جہاں سے اسے خریدا گیا ۔یہاں تک کہ تاجر اسے اپنے قبضے میں نہ لے لیں)اس حدیث کو ابو داود نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔" ختم شد

اسی طرح علامہ عینی رحمہ اللہ "عمدة القاری" (11/250) میں کہتے ہیں:
"اس کا مطلب یہ ہے کہ: کوئی کسی سے ایک درہم کا غلہ ادھار لے، پھر غلہ اپنے قبضے میں لینے سے پہلے اسی شخص کو یا کسی اور کو مثلاً: دو درہم میں فروخت کر دے، تو یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ حقیقت میں یہاں درہم کی درہم کے بدلے بیع ہو رہی ہے، جبکہ غلہ موجود ہی نہیں ہے، تو گویا کہ اس نے اپنے اس درہم کو دو درہم کے عوض فروخت کر دیا ہے جس سے اس نے غلہ لیا تھا، اور یہ ربا ہے۔ کیونکہ یہ غائب چیز کی نقد چیز سے فروخت ہے اس لیے صحیح نہیں ۔" ختم شد

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی مسلمان کے لیے کوئی سامان نقد یا ادھار بیچنا تبھی جائز ہو گا جب وہ اس کا مالک بھی ہو اور اس کے قبضے میں بھی ہو؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ایسی چیز فروخت مت کر جو تمہارے پاس نہیں ہے) اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (ایک ہی شخص کو قرض دینا اور پھر اسی سے بیع کرنا حلال نہیں ہے، نہ ہی ایسی چیز کی کوئی بیع ہے جو آپ کے پاس نہیں۔) اس حدیث کو صحیح سند کے ساتھ پانچوں محدثین نے روایت کیا ہے، لہذا مذکورہ ان دونوں احادیث کی وجہ سے اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ جب تک مال تجارت اپنے قبضے میں نہیں لے لیتا اس وقت تک وہ اسے فروخت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ایک روایت جسے امام احمد اور ابو داود نے بیان کیا ہے اور ابن حبان سمیت حاکم نے بھی اسے صحیح کہا ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا کہ سامان تجارت وہی فروخت کر دیا جائے جہاں سے اسے خریدا گیا ہے یہاں تک کہ تاجر اسے اپنے قبضے میں نہ لے لیں) ایسے ہی صحیح بخاری میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : (میں نے لوگوں کو عہد نبوت میں غلے کی بغیر وزن کیے ڈھیریوں کی صورت میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھا ۔ انہیں سزا دی جاتی تھی کہ وہ غلہ اپنی جگہوں پر منتقل کرنے سے پہلے وہیں پر فروخت کر دیں۔) اس حوالے سے بہت زیادہ احادیث موجود ہیں۔" ختم شد
"مجموع فتاوى الشيخ ابن باز " (19/64)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب