الحمد للہ.
بالوں کو سنوارنا اور تیل لگانا مستحب ہے؛ کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث
ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے بال رکھے ہوئے ہیں وہ بالوں کی
تکریم کرے)
ابو داود: (3632) اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث کے الفاظ: " وہ بالوں کی تکریم کرے " کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دھو کر تیل لگائے،
اور کنگھی کر کے صاف ستھر اور خوشنما رکھے، بالوں کو بکھرا ہوا مت رکھے، کیونکہ
صفائی ستھرائی اور خوبصورتی مطلوب امر ہے۔ انتہی
ماخوذ از حاشیہ: "عون المعبود" (9/1183)
تاہم بالوں کی دیکھ بھال اور بناؤ سنگھار میں مبالغہ کرنا قابل مذمت ہے؛ کیونکہ اس
طرح فضول خرچی، وقت کا ضیاع، اور بلا فائدہ توانائی ضائع ہوتی ہے، اور (نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو بنانے سنوارنے سے منع فرمایا ہے، الا کہ ایک دن چھوڑ کر
سنوارا جائے)
اس روایت کو ابو داود : (3628) ترمذی: (1678) نے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے
اسے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔
ابن اثیر رحمہ اللہ اس حدیث کے الفاظ کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے
ہیں:
"حدیث کے الفاظ : "ترجیل" کا مطلب یہ ہے کہ بال سیدھے کرنا، انہیں صاف کرنا اور
سنوارنا" انتہی
"غریب الحدیث "(2/494)
اور اسی طرح حدیث کے عربی لفظ: "اِلَّا
غِبًّا"
کا معنی امام احمد نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ: "ایک دن چھوڑ کر ایک دن بالوں میں تیل
لگایا جائے" انتہی
امام احمد کی یہ بات " المغنی" (1/67) میں بیان ہوئی ہے۔
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث روزانہ کنگھی کرنے میں لگے رہنے کو مکروہ قرار دیتی ہے؛ کیونکہ یہ بھی غیر
ضروری بناؤ سنگھار کے زمرے میں آتا ہے، اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث ابو
داود میں ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بہت سی بناؤ سنگھارکی چیزوں سے
منع کیا کرتے تھے)
حدیث کے عربی لفظ: "الإرفاه"
کا مطلب ہے کہ ہر وقت انسان بناؤ سنگھار میں لگا رہے" انتہی
ماخوذ از: "نيل الأوطار" (1/159)
اور ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح
بات یہ ہے کہ ان دونوں - جس نے بال رکھے ہوئے ہیں وہ بالوں کی تکریم کرے ، اور
روزانہ بالوں میں کنگھی کرنے سے منع کرنے والی حدیث – میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس
لیے کہ ہر شخص کو اپنے بال سنوارنے کا حکم دیا گیا ہے اور ہر وقت اسی میں لگے رہنے
سے روکا گیا ہے، چنانچہ اپنے بالوں کو سنوار کر رکھے لیکن ہر وقت اسی کام میں نہ
لگا رہے، بلکہ وقفے کے ساتھ کنگھی کرے، یہ دونوں احادیث کا اعلی ترین مفہوم ہے"
انتہی
ماخوذ از: "حاشیۃ السنن" (11/147)
اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم
تشریف لائے تو ایک آدمی کو بکھرے ہوئے پراگندہ بالوں کیساتھ دیکھا اور فرمایا: (کیا
اسے اپنے بالوں کو سنوارنے کیلئے کوئی چیز نہیں ملتی؟)
اس روایت کو احمد : (14321) ابو داود : (3540) اور نسائی:(5141) نے روایت کیا ہے
نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا۔
مالک رحمہ اللہ موطا (1494) میں زید بن اسلم سے بیان کرتے ہیں کہ عطا بن یسار نے انہیں بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مسجد میں تھے تو ایک شخص پراگندہ سر کے بالوں اور بکھری ہوئی ڈاڑھی کیساتھ داخل ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ کے اشارے سے کہا باہر چلے جاؤ اور سر بال اور داڑھی کو سنوارو، اس پر وہ شخص گیا اور سر کے بال و داڑھی سنوار کر واپس آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ [صورت]اس سے بہتر نہیں ہے؟ کہ انسان شیطان کی طرح بکھرے ہوئے بالوں کیساتھ آئے )
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات ٹھیک ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کی یہ روایت مرسل ہے، لیکن اس کا معنی جابر
اور دیگر صحابہ کرام کی احادیث سے ثابت ہے۔۔۔ اس حدیث میں سر اور داڑھی کے بالوں کو
سنوار کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، نیز بالوں کو پراگندہ اور بکھرے ہوئے چھوڑنے کو
مکروہ قرار دیا گیا ہے" انتہی
"التمهيد" (5/50)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک دن چھوڑ کر بالوں کو سنوارنا مستحب ہے، بال سنوارنے میں بالوں کو سیدھا کرنا
اور تیل لگانا شامل ہے، اسی طرح جسم پر تیل لگانا ۔۔۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے
گزشتہ دلیل ذکر کرے کہا۔۔۔ امام احمد کا کہنا ہے کہ ایک دن چھوڑ کر تیل لگائے"
مقصد یہ ہے کہ : جسم اور بالوں میں تیل اپنی ضرورت کے مطابق معتدل انداز سے لگائے، اگرچہ گھنے بالوں یا خشک جلد کی وجہ سے بار بار تیل لگانے کی ضرورت محسوس ہو تو بار بار لگانا بھی جائز ہوگا؛ کیونکہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کندھوں تک لمبے بال تھے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روزانہ کنگھی کرنے کا حکم دیا، اس روایت کو نسائی نے نقل کیا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے بال رکھے ہوئے ہیں وہ بالوں کی تکریم کرے) ابو داود: (3632) اور اسی طرح جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بکھرے ہوئے پراگندہ بالوں کیساتھ دیکھا اور فرمایا: (کیا اسے اپنے بالوں کو سنوارنے کیلئے کوئی چیز نہیں ملتی؟)اس روایت کو احمد : (14321) ابو داود : (3540) اور نسائی:(5141) نے نقل کیا ہے" انتہی
خلاصہ یہ ہے کہ:
اپنے بالوں کو سنوار کر رکھنا چاہیے بکھرے ہوئے اور پراگندہ حالت میں چھوڑنا درست نہیں ہے، تاہم بالوں کا خیال کرتے ہوئے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لینا منع ہے، چنانچہ اگر مبالغہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم.