ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

زکاۃ کی ادائیگی ماہ رمضان میں کرنے کے لئے تاخیر کرنے کا حکم

سوال

پہلے تو میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اتنی جانفشانی کے ساتھ اتنا بڑا کام کر رہے ہیں، میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی آپ کے اس عمل کو آپ کی نیکیوں میں شامل فرمائے، اور مسلم یا غیر مسلم جو بھی آپ کی ویب سائٹ کا وزٹ کرے اسے اس ویب سائٹ سے فائدہ ہو۔ میرا سوال یہ ہے کہ: تین سال قبل مجھے ملازمت ملی، الحمد للہ مجھے وہاں سے اچھی تنخواہ ملتی ہے، لیکن جب میں نے یہ حساب لگانے کی کوشش کی کہ میرے پاس زکاۃ کا نصاب کب مکمل ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ جمادی ثانیہ کا مہینہ تھا، تاہم میں نے غیر ارادی طور پر اپنی زکاۃ ماہ رمضان میں ادا کی؛ کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ میں کسی بھی وقت میں اپنی زکاۃ ادا کر سکتا ہوں مجھے اس کا اختیار حاصل ہے، میں نے رمضان میں دو سال تک زکاۃ ادا کی ہے، تو اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس سال بھی میں رمضان میں ہی زکاۃ ادا کروں جیسے کہ میں سابقہ دو سالوں میں ادا کرتا آیا ہوں؟ یا پھر مجھے جمادی ثانیہ میں ہی زکاۃ ادا کرنی چاہیے اور کیا مجھ پر سابقہ دو سالوں میں تاخیر سے زکاۃ ادا کرنے پر کوئی حکم لاگو ہوتا ہے؟ مطلب کہ تاخیر والے ہر مہینے کی زکاۃ کا تخمینہ لگا کر انہیں ادا کروں؟ یہ واضح رہے کہ میں جب رمضان میں زکاۃ ادا کرتا تھا تو اس وقت میرے قبضے میں جتنا بھی مال ہوتا تھا سب کی زکاۃ دیتا تھا، یعنی جمادی ثانیہ کے بعد بھی جو آمدنی مجھے ہوئی ہے اس کی بھی زکاۃ ادا کر دیتا تھا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جب مال نصاب کو پہنچ جائے اور سال گزر چکا ہو تو پھر زکاۃ کی فوری ادائیگی ضروری ہے، اگر کسی عذر کے بغیر ہی کوئی زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو وہ گناہ گار ہے؛ اور اگر کسی عذر کی بنا پر تاخیر ہوئی مثلاً: فقیر میسر نہیں تھے جنہیں زکاۃ دی جاتی تو پھر گناہ گار نہیں ہوگا۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جیسے ہی زکاۃ واجب ہو اور زکاۃ ادا کرنے کا موقع بھی ہو تو ادائیگی فوری طور پر ضروری ہے، ایسی صورت میں زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر جائز نہیں، اسی کے امام مالک، احمد، اور جمہور علمائے کرام قائل ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:   وَآتُوا الزَّكَاةَ  اور زکاۃ ادا کرو۔ اور حکم کی تعمیل فوری ہونی چاہیے۔ " ختم شد
"شرح المهذب" (5/308)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (9/398) میں ہے:
"اگر زکاۃ ادا کرنے کا وقت جمادی اولی ہے، تو کیا ہمارے لیے زکاۃ کی ادائیگی بغیر کسی عذر کے رمضان تک مؤخر کرنا جائز ہے؟
جواب: زکاۃ کا مالی سال مکمل ہونے کے بعد زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر جائز نہیں ہے، الا کہ کوئی شرعی عذر موجود ہو، مثلاً: سال مکمل ہونے پر ضرورت مند حضرات نہیں مل رہے، یا ان تک پہنچانا ممکن نہیں ہے، یا ابھی رقم موجود نہیں ہے، یا اسی طرح کا کوئی اور عذر ہو تو جائز ہے۔

صرف رمضان کی وجہ سے زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، الا کہ معمولی مدت ہو، مثلاً: شعبان کے دوسرے نصف میں سال پورا ہو رہا ہے تو پھر رمضان تک تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عبد العزيز بن عبد الله بن باز ..عبد الله بن قعود...عبد الله بن غديان

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے زکاۃ کی ادائیگی رمضان تک مؤخر کرنے کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"زکاۃ بھی دیگر خیر کے کاموں کی طرح ہے کہ فضیلت والے وقت میں اس کی ادائیگی زیادہ فضیلت رکھتی ہے، لیکن جب زکاۃ واجب ہونے کا وقت ہو جائے اور زکاۃ کا مالی سال پورا ہو جائے تو انسان پر لازمی ہو جاتا ہے کہ زکاۃ ادا کر دے، اسے رمضان تک مؤخر نہ کرے، مثلاً: زکاۃ کا مالی سال رجب میں پورا ہو رہا ہے، تو وہ رمضان تک زکاۃ کی ادائیگی مؤخر مت کرے، بلکہ رجب میں ہی زکاۃ ادا کر دے، اسی طرح اگر کسی کی زکاۃ کا مالی سال محرم میں پورا ہو رہا ہے تو وہ محرم میں زکاۃ ادا کر دے، رمضان تک مؤخر مت کرے۔ اور اگر سال رمضان میں پورا ہو رہا ہے تو پھر رمضان میں ہی زکاۃ ادا کرے، اسی طرح اگر مسلمانوں پر فاقہ کشی آ جائے اور سال پورا ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کرنے چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (18/295)

دوم:

محترم سائل نے اپنے مال کی زکاۃ رمضان تک غلط فہمی کی وجہ سے مؤخر کی تو لا علمی کی بنا پر انہیں گناہ نہیں ملے گا، پھر انہوں نے رمضان میں زکاۃ ادا کر دی تو تاخیر کی بنا پر کچھ نہیں ہے، لیکن اس سال وہ اپنی زکاۃ جمادی ثانیہ میں ہی ادا کریں، رمضان تک اسے مؤخر مت کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب