الحمد للہ.
اول:
کتاب اللہ کے بارے میں زبان درازی اور اس کی آیات میں تناقض اور تعارض تلاش کر نے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے، پہلے بھی اس جیسے حملے کیے جا چکے ہیں اور ہر ایک ناکام و نامراد ہی واپس لوٹا، ہمارے پاس ہمارے رب کی طرف سے نازل شدہ کتاب قرآن مجید میں اگر یہود و نصاری کی کتابوں میں پائی جانے والی تحریف ، تعارض اور تناقض کا تھوڑا سا بھی حصہ ہوتا تو ہم اس پر ایمان نہ لاتے بلکہ سب سے پہلے انکار کرتے، لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے! کیونکہ اللہ تعالی نے خود اپنی اس کتاب کی قیامت تک حفاظت کا ذمہ لیا ہے، تا کہ یہ کتاب اپنے اندر موجود حق اور سچائی کے ساتھ لوگوں کے خلاف حجت بن سکے۔
اگر یہ عیسائی شخص اپنی سب سے پہلے بیان کردہ آیت جو کہ قرآن کریم میں عدم تناقض پر دلالت کرتی ہے اس پر صحیح طرح سے غور و فکر کر لیتا تو کبھی بھی قرآن مجید پر تنقید کرنے کے لیے ان شبہات کو جمع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا۔ اولین عربوں سے لے کر معاصر عربوں تک ان میں علما، دانشور، ادیب، اور سخن ور گزرے ہیں سب کے سب قرآن کریم پڑھتے تھے لیکن ان کے ہاں یہ آیات تعارض کا باعث نہ بنتیں تھیں، ہاں ایسا ہو جاتا تھا کہ انہیں کچھ آیات کے بارے میں اشکال ہو لیکن جیسے ہی وہ غور و فکر کرتے ، راسخ اہل علم اور مفسرین سے رجوع کرتے تو جلد ہی اشکال دور ہو جاتا تھا، چنانچہ اس عیسائی کی طرف سے بیان کردہ پہلی آیت میں اللہ تعالی قرآن کریم پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے: أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ کیا وہ قرآن کریم پر غور و فکر نہیں کرتے؟ پھر اس کے بعد فرمایا: وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافاً كَثِيراً اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔ [النساء: 82]
اس لیے اگر یہ عیسائی شخص قرآنی آیات پر حقیقی معنی میں غور و فکر کرتا تو اسے تھوڑا یا زیادہ بالکل بھی اختلاف نظر نہ آتا، اگر تھوڑی سی زحمت کرتے ہوئے راسخ العلم علمائے کرام کی گفتگو کا مطالعہ کرتا تو اسے قرآن مجید میں تناقض نظر نہ آتا۔
یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی قرآن کریم کی تلاوت تدبر کے بغیر کرتا ہے خصوصاً ایسا شخص جو پہلے سے ہی کسی خاص منفی رجحان کی طرف مائل ہے تو یہ فطری چیز ہے کہ اسے قرآن کریم کی آیات میں تناقض اور تعارض نظر آئے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تناقض اور تعارض اس کے فہم اور ذہن میں ہے اللہ تعالی کی محکم آیات میں کوئی تناقض نہیں ہے۔ حالانکہ دوسری جانب مخلوق میں سے کوئی کتاب لکھے تو آغاز میں ہی معذرت پیش کر دیتا ہے کہ اگر کوئی کمی ہو تو مؤلف کا عذر قبول کریں اور اس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے صرف مؤلف کو ہی اس کے بارے میں اطلاع کریں۔ چنانچہ اسی لیے معیاری لکھاری اپنی کتاب کو متعدد بار طبع کرواتے ہیں اور اس پر لکھتے ہیں: "غلطیوں سے پاک ایڈیشن" جبکہ کتاب اللہ کو کھولتے ہی پہلے صفحہ پر نظر پڑتی ہے تو اس میں پڑھنے کو ملتا ہے: الم . ذَلِكَ الكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ ترجمہ: الم، اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ [البقرۃ: 1-2]
قرآن کریم کے اس اندازِ آغاز سے ہی متاثر ہو کر بہت سے عیسائی مسلمان ہو گئے اس کتاب کے مندرجات کسی بشر کی طرف سے نہیں ہیں، اور کسی بھی انسان کے لیے اپنی تالیف کے آغاز میں اس طرح کے الفاظ کہنا ممکن ہی نہیں ہیں، چنانچہ جب انہوں نے قرآنی آیات کی تلاوت کی تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہ واقعی رب العالمین کا کلام ہے، اس لیے اگر اس عیسائی شخص کے ہاں کسی چیز کی کمی ہے تو تدبر کی کمی ہے، پھر اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں ہی اس پر غور و فکر کی ترغیب بلا مقصد نہیں بلکہ واضح حکمت کی بنا پر ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی لیے اللہ تعالی نے تدبر قرآن کی ترغیب دلائی ؛ کیونکہ قرآن کریم پر تدبر کرنے والے کو یقینی ، ضروری اور لازمی طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب حق اور سچ ہے، بلکہ سب سے زیادہ حق اور سب سے زیادہ سچ ہے، پھر جو شخصیت اسے لے کر آئی ہے وہ بھی اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ سچی، نیک اور علم، عمل و معرفت کے اعتبار سے کامل ترین ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافاً كَثِيراً
ترجمہ: اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔ [النساء: 82] "
ایسے ہی فرمایا:
أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
ترجمہ: کیا وہ قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟[محمد: 24]
چنانچہ اگر دلوں سے تالے اتر جائیں اور براہ راست قرآنی حقائق سے نور حاصل کریں تو یہ دل ایمانی روشنی سے منور ہو جائیں گے اور انہیں اس کتاب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے کا بالکل اسی طرح یقین ہو جائے گا جیسے انسان خوشی، غمی، محبت اور خوف جیسے وجدانی امور پر یقین رکھتا ہے، اسے یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالی نے حقیقی طور پر یہ کلام فرمایا ہے، پھر اللہ کے پیغام رساں فرشتے جبریل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا ہے" ختم شد
" مدارج السالكين " ( 3 / 471 ، 472 )
قرآن کریم پر غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم تعارض اور تناقض سے بالکل خالی ہے، اور اگر کہیں ظاہری طور پر اختلاف نظر آئے تو وہ "اختلاف تلاوم" یعنی ایسا اختلاف جو الگ الگ ہونے کے باوجود بھی مختلف نہ ہو، یہ اختلاف حالت، زمانہ اور شخص کے بدلنے سے رونما ہوتا ہے، اسے بالکل آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے، بلکہ اسے حل کرنے پر اللہ تعالی کی کتاب حکیم کی ایک نئی جہت اعجاز سمجھ میں آتی ہے۔
ابو بکر جصاص رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اختلاف کی تین قسمیں ہیں:
اختلاف تناقض: اس میں ایک چیز دوسری چیز کے بالکل الٹ اور منافی ہوتی ہے۔
اختلاف تفاوت: اس میں ایک چیز زیادہ بلیغ ہوتی ہے اور دوسری چیز غیر معیاری ہوتی ہے۔
تو قرآن کریم میں یہ دونوں قسم کے اختلافات نہیں ہیں، اور یہ قرآن کریم کے اعجاز کا ایک مظہر ہے؛ کیونکہ کوئی بھی کتنا ہی فصیح و بلیغ ہی کیوں نہ ہو جب اس کا کلام طویل ہوتا جائے گا جیسے کہ قرآن کریم کی طویل سورتیں ہیں تو اس میں اختلاف تفاوت تو کم از کم ضرور پیدا ہو گا۔
اختلاف تلاوم: یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود بھی سب معانی میں خوب صورتی پائی جائے، مثلاً: قراءات کی توجیہ میں اختلاف، آیات کی تقدیری عبارات میں اختلاف، ناسخ اور منسوخ میں احکام کا اختلاف وغیرہ ، تو آیت کریمہ میں قرآن کریم کو دلیل بنانے کی ترغیب ہے؛ کیونکہ قرآن کریم میں اس حق کے لیے دلائل مختلف انداز میں موجود ہیں جس پر عمل کرنا لازم ہے۔" ختم شد
اختلاف تلاوم کی واضح ترین مثال یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جس وقت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ذکر کیا ہے تو کسی جگہ کہا کہ اللہ تعالی نے آدم کو پانی سے پیدا کیا، اور کسی جگہ کہا مٹی سے پیدا کیا، کسی جگہ گوندھی ہوئی مٹی سے پیدا کیا اور کسی جگہ کہا ہے انہیں بجنے والی کھنگر مٹی سے پیدا کیا، تو کیا یہ تناقض اور تعارض ہے؟! -اگر اس معترض عیسائی کو اس کا بھی پتہ چلے تو اسے بھی اعتراضات میں شامل کر لے!!- یہ تعارض نہیں بلکہ تخلیق آدم کے متعدد مراحل ہیں، اور ہم اس بارے میں تفصیلی گفتگو سوال نمبر: (4811) کے جواب میں بیان کر آئے ہیں۔
اور اگر یہ تناقض ہوتا تو اس پر لغت اور بلاغت کے کافر ماہرین اسی وقت اعتراض کر دیتے جب قران کریم نازل ہو رہا تھا، لیکن انہیں اپنی عزت کا خیال تھا اس لیے انہوں نے قران کریم کی بلاغت اور نظم کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ قرآن کریم کی آیات سن کر بہت سے کافر مسلمان ہو گئے تھے، اور مسلمان کیوں نہ ہوں؟ یہ قرآن تو ہے ہی ہدایت۔
دوم:
عیسائی شخص نے جس چیز کو تناقض یا تعارض کہا ہے کہ ایک بار اللہ تعالی نے فرعون کے پانی میں ڈوب کر مرنے کا ذکر کیا تو پھر دوسری جگہ فرمایا:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
ترجمہ: پس آج ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات دیں گے، تا کہ توں اپنے بعد والوں کے لیے عبرت کی نشانی بن جائے، یقیناً بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہوتے ہیں۔[یونس: 92]
یہاں تعارض سمجھنا بہت تعجب خیز ہے؛ کیونکہ فرعون کے غرق ہونے میں کوئی شک نہیں ہے فرعون اسی غرق ہونے کے نتیجے میں ہلاک اور واضح طور پر تباہ ہوا ہے۔
تو یہاں اس عیسائی سے سوال ہے کہ : کیا پانی میں غرق ہو کر مرنے والے ہر جاندار کو شارک مچھلیاں کھا جاتی ہیں اور وہ سمندر کی گہرائیوں میں گم ہو جاتا ہے؟ یا یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی جاندار پانی میں ڈوب جائے اور پھر اس کا جسم پانی پر تیرنے لگے، اور پانی میں تحلیل نہ ہو؟ یہاں یقینی جواب دوسرا جواب ہے، اور یہی چیز مشاہدے میں بھی آتی ہے کہ سمندر میں گر کر تباہ ہونے والے ہوائی جہاز، اور بحری کشتیوں وغیرہ میں سوار لوگوں کی نعشیں پانی پر تیرنے لگتی ہیں۔
تو ہم اس عیسائی سے کہتے ہیں کہ فرعون کے ساتھ بھی در حقیقت یہی کچھ ہوا کہ فرعون سمندر میں غرق ہو کر مرا اور پھر اللہ تعالی نے اس کی مردہ نعش کو پانی پر تیرا دیا تا کہ بنی اسرائیل کو فرعون کے مرنے کی تصدیق ہو جائے، فرعون کی نعش تیرانے میں بھی بڑی حکمت تھی کہ یہ فرعون اپنے آپ کو رب اعلی کہا کرتا تھا!! تو یہاں مناسب تھا کہ خود ساختہ رب کی نعش لوگوں کے سامنے آئے اور اس کے دعوی ربوبیت کا پول کھل جائے، اور کمزور دلوں سے اس کا خوف نکل جائے کہ وہ دوبارہ کسی اور روپ میں نہیں آ سکتا، اور اس طرح کی باتیں کرنے والے کمزور دل لوگ ہر جگہ با آسانی پائے جاتے ہیں۔
آیت میں مذکور لفظ: "نُنَجِّيك"کا معنی بلند کرنا اور تیرنا ہیں، تو یہ لفظ "النجو" سے ماخوذ ہے، اگر اس لفظ سے مراد نجات ہے تو اس میں موت سے نجات کسی صورت میں شامل نہیں ہو گی، بلکہ یہاں بدن کی نجات مراد ہے، کہ بدن کو سمندر کی تہوں یا کسی درندے کی خوراک بننے سے نجات ملی، اور اگر یہ عیسائی اللہ تعالی کے فرمان: نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ پر تھوڑا سا غور کر لیتا کہ یہ جملہ موت سے نجات کے بارے میں استعمال نہیں ہوا بلکہ بدن کو ضائع ہونے سے تحفظ دینے کے بارے میں استعمال ہوا ہے، چنانچہ اگر فرعون کی موت سے نجات یہاں مراد ہوتی تو اس کے بعد "ببدنك" کا تذکرہ بالکل فضول ہو جاتا، اور اللہ تعالی کا کلام کسی بھی فضول لفظ سے بھی پاک ہے۔
واللہ اعلم