جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

خاوند كے ساتھ رہنے ميں راحت و سكون نہيں اس ليے عليحدگى چاہتى ہے

170833

تاریخ اشاعت : 02-01-2012

مشاہدات : 6117

سوال

ميرى شادى كو كم از كم پندرہ برس ہو چكے ہيں اور ميرا خاوند بڑا مہربان ہے، ہم ايك دوسرے كے واجبات ادا تو كر رہے ہيں ليكن ايك دوسرے سے لگاؤ نہيں ہے، اسى طرح ہمارے جنسى تعلقات بھى بہت كم ہيں، صرف واجبى حق ہى ادا ہوتا ہے.
اتنے برسوں كے بعد بھى ميں محسوس كرتى ہوں كہ ميرى ازدواجى زندگى سعادت والى نہيں اور ميں اللہ كا شكر ادا نہيں كرتى، بلكہ پچھلے دو ماہ سے تو ميں ايك دوسرے شخص ميں دلچسپى لينے لگى ہوں جو ميرى عليحدگى كے بعد مجھ سے شادى كرنا چاہتا ہے، ميں يہ محسوس كرنے لگى ہوں كہ اگر اپنى اس خاوند سے عليحدہ نہ بھى ہوئى تو ميں اپنے خاوند كے ساتھ مخلص نہيں رہونگى.
اس ليے آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں كہ اس حالت ميں دين اسلام ہميں كيا كہتا ہے، ميں نے اپنى دنيا تو ضائع كر لى ہے، ليكن اپنى آخرت ضائع نہيں كرنا چاہتى، برائے مہربانى ميرے سوال كا جواب ضرور ديں، ميں ايسے افراد سے دريافت نہيں كرنا چاہتى جو دين اسلام كا علم نہيں ركھتے ميرى اس مشكل كا حل صرف علماء كرام ہى بتا سكتے ہيں اگر يہ جگہ ميرے سوال كے ليے مناسب نہيں تو برائے مہربانى آپ مجھے كسى ايسے عالم دين كا بتائيں جو ميرى مشكل كو حل كر سكے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہر شادى كامياب نہيں ہوتى، بلكہ بعض شادياں كامياب اور بعض ناكام ہوتى ہيں، اور بعض اوقات ايسا بھى ہى ہوتا ہے كہ خاوند اور بيوى دونوں يا پھر كوئى ايك اپنى شادى كو ناكام تصور كرتا ہے، ليكن وہ عليحدگى اور ازدواجى زندگى كو ختم كرنے كى بجائے مزيد صبر و تحمل سے كام ليتے ہيں اور آپس ميں اختلافات اور جھگڑوں كے اسباب تلاش كر كے اس كے حل كى كوشش كرتے ہيں، تو ايسى شادى سارى زندگى قائم رہتى ہے، حالانكہ اس كى راہ ميں بہت سارى مشكلات آئيں اور تقريبا ان كى ازدواجى زندگى ختم ہونے كے قريب تھى كہ ان ميں استقرار پيدا ہوگا.

اسى ليے قرآن مجيد اور سنت نبويہ خاوند اور بيوى كو حسن معاشرت كى بہت تلقين كرتى اور اس كى بہت زيادہ راہنمائى كر رہے ہيں، اور ان ميں جو اختلافات اور جھگڑے پيدا ہوتے ہيں انہيں حل كرنے كے طريقے بتاتے ہوئے وعظ و نصيحت يا پھر ہلكى پھلكى مار يا بائيكاٹ جيسے طريقوں سے راہنمائى كى گئى ہے.

اور اگر خاوند كى طرف سے زيادتى ہو تو پھر خاوند اور بيوى دونوں كے خاندان ميں سے ايك ايك منصف شخص كو اختلاف حل كرنے كے ليے مقرر كرنے كا كہا گيا ہے، اور خاوند كو بيوى كے معاملہ ميں صبر و تحمل سے كام لينے كا حكم ديا گيا ہے كہ اگر وہ بيوى كا كوئى غلط كام ديكھتا ہے تو اسے بيوى ميں ايسى بہت سارى اچھى صفات مليں گى جن سے وہ راضى ہو جائيگا، اسى طرح قرآن و حديث ميں بہت سارى وصيتيں ايسى ہيں جو ان جھگڑوں اور اختلافات كو ختم كر ديتى ہيں.

صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مومن مرد مومن عورت سے بغض نہيں ركھتا اور ناراض نہيں ہوتا، اگر اسے اس كا كوئى ايك اخلاق اچھا نہيں لگتا تو وہ اس كے كسى دوسرے كام سے راضى ہو جائيگا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1469 ).

اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا اراہ ركھنے والے شخص سے فرمايا تھا:

" تم اسے طلاق كيوں دينا چاہتے ہو ؟

اس نے جواب ديا: ميں اس سے محبت نہيں كرتا.

چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جواب ديا:

" كيا سب گھروں كى بنياد محبت پر ہى قائم ہے، ديكھ بھال اور خيال كرنا اور شرم كرنا كہاں گئى ؟!!

ديكھيں: عيون الاخبار ( 3 / 18 ).

ايك دوسرے كا خيال كرنے سے افراد خانہ ميں رحمدلى پيدا ہوتى ہے، اور ہر كوئى دوسرے كے متعلق واجب چيز كى پہچان ہوتى ہے.

اور ايك دوسرے كى شرم كرنے سے ہر كوئى شخص دوسرے سے عليحدہ راہ اختيار كرنے سے اجتناب كرتا ہے، يا پھر اس كے ہاتھ سے تفرقہ پيدا نہيں ہوتا.

دوم:

ہمارى سائلہ بہن اگر آپ ديكھيں اور محسوس كريں كہ آپ اور خاوند كے مابين اصلاح كے سارے راہ مسدود ہو چكے ہيں اور كوئى وسيلہ نہيں رہا، تو پھر آپ كى مشكل كا شرعى حل آپس ميں ايك دوسرے سے عليحدگى ہے اور اللہ تعالى آپ دونوں كو ايك دوسرے سے غنى كر دےگا، آپ كو اس سے بہتر مل جائيگا، اور آپ كے خاوند كو بھى كوئى بہتر بيوى مل جائيگى.

بلاشك و شبہ برى زندگى سے ايك دوسرے سے عليحدہ ہو جانا ہى بہتر ہے كيونكہ زندگى اجيرن ہو جائے تو انسان نفسياتى اور جسمانى مريض بن كر رہ جاتا ہے، اور شرعى مخالفات پيدا ہو جاتى ہيں.

جيسا كہ آپ كے ساتھ ہو رہا آپ كسى غير محرم اور اجنبى شخص ميں دلچسپى لے رہى ہيں! اس كام كا انجام بہت خطرناك اور بہت سزا ہے، اور اسى طرح آپ كا خاوند بھى ہو سكتا ہے كسى اور عورت ميں دلچسپى لينے لگا ہو، اس ليے آپ دونوں كو اپنى ازدواجى زندگى كے بارہ ميں كوئى مناسب فيصلہ كريں.

يہاں ہم متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ آپ كے ليے اس اجنبى اور غير محرم شخص سے تعلقات ركھنا حلال نہيں، چاہے يہ تعلقات كسى بھى ناحيہ سے ہوں، اور آپ كے ليے ابھى سے ہى شادى كرنے كے وعدے كرنا حلال نہيں، بلكہ آپ پر ان تعلقات كو ختم كرنا واجب ہے، اور اس كے ليے آپ وعدہ وغيرہ مت كريں يا ايك دوسرے كا انتظار بھى نہيں كہ يہاں سے فارغ ہو كر شادى كرينگے.

ہو سكتا ہے آپ كے اس مرد كے ساتھ تعلقات ہى آپس ميں اختلافات كا باعث ہوں، جب آپ يہ تعلقات ختم كر ديں اور بعد ميں آپ كو محسوس ہو كہ آپ كا خاوند سے طلاق لينا ہى بہتر ہے تو آپ اپنے حالات كو زيادہ بہتر طريقہ سے جانتے ہيں پھر اللہ جو چاہے آپ ميں فيصلہ كر ديگا.

اور اگر ممكن ہو سكے تو آپ كسى صلح پسند اور نيك و صالح شخص كو اپنے اختلافات حل كرنے كا كہيں تا كہ وہ قريب ہو كر آپ كى مشكل كو ديكھ كر كوئى فيصلہ كرے اور مناسب حل بتا سكے، ہو سكتا ہے يہى افضل و بہتر ہو اور حقائق كو بھى مناسب طريقہ سے معلوم كر سكے.

ہم دعا گو ہيں كہ اللہ تعالى آپ اور آپ كے خاوند كو خير و بھلائى پر جمع ركھے، اور آپ دونوں كے ليے خير و بھلائى كے حصول ميں آسانى پيدا فرمائے.

برائے مہربانى آپ درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ كريں:

بيوى اپنے خاوند كى بجائے كسى اور اجنبى اور غير محرم شخص ميں دلچسپى محسوس كرے تو اس كے متعلق حكم اور معلومات معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 45520 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اگر بيوى اپنے خاوند سے محبت نہيں كرتى اور اس كے ساتھ رہنے ميں سعادت محسوس نہيں كرتى تو بيوى كو كيا كرنا چاہيے اس كے ليے آپ سوال نمبر ( 101423 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

سوال نمبر ( 102637 ) كے جواب ميں بيان كيا گيا ہے كہ اگر كوئى دين پر عمل كرنے والا خاوند اپنى بيوى سے محبت تو كرتا ہے ليكن اس كى بيوى اس ميں دلچسپى نہيں ليتى تو كيا حل ہے، آپ اس كا بھى مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب