سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

دوران عدت بيوہ سے شادى كر لى

سوال

ايك شخص نے بيوہ عورت سے دوران عدت ہى شادى كر لى ابھى اس كے خاوند كے فوت ہونے كى عدت مكمل نہيں ہوئى تھى، اور يہ واقعہ آج سے تقريبا تيس برس قبل شريعت سے لاعلمى كى بنا پر پيش آيا تھا، ا ب ان دونوں كى اولاد بھى ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اب كيا كيا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جس عورت كا خاوند ہو جائے اور وہ حاملہ نہ ہو تو اسے چارہ ماہ دس دن عدت گزارنى ضرورى ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم ميں سے وہ لوگ جو فوت ہو جائيں اور اپنى بيوياں چھوڑ جائيں تو وہ عورتيں چار ماہ دس دن انتظار كريں البقرۃ ( 234 ).

اور اگر بيوى حاملہ ہو تو اس كى عدت وضع حمل سے ختم ہوگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور حمل واليوں كى عدت يہ ہے كہ وہ اپنے حمل وضع كر ليں الطلاق ( 4 ).

اس ليے اگر عورت نے دوران عدت نكاح كر ليا تو علماء كرام كے متفقہ فيصلہ كے مطابق اس كا نكاح باطل ہوگا، اور ان دونوں كے مابين عليحدگى كرانا ضرورى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عدت والى عورت كے ليے بالاجماع دوران عدت نكاح كرنا جائز نہيں، وہ عدت كوئى بھى ہو كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جب تك عدت ختم نہ ہو جائے تم عقد نكاح كا ارادہ مت كرو .

اور ا گر وہ دوران عدت شادى كر لے تو اس كا نكاح باطل ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 100 ).

اس ليے اس عورت اور اس كے دوسرے خاوند كے مابين عليحدگى كرانا ضرورى ہے، پھر وہ اپنى پہلے خاوند سے عدت مكمل كريگى، اور جب پہلے كى عدت سے فارغ ہو جائے تو دوسرے شخص كے ليے نيا عقد كرنا جائز ہوگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب يہ ثابت ہو جائے تو اسے اس عورت سے عليحدہ ہونا لازم ہے، اور اگر وہ ايسا نہ كرے تو دونوں كے مابين عليحدگى كرانا واجب ہوگى، اگر وہ اسے چھوڑ دے يا ان كے مابين عليحدگى كرا دى جائے تو اس عورت پر پہلے سے عدت پورى كرنا ہوگى؛ كيونكہ اس كا پہلے حق ہے، اور صحيح نكاح ميں وطئ سے اس كى عدت واجب ہوئى ہے.

لہذا جب وہ پہلے كى عدت پورى كر لے تو اس پر واجب ہے كہ وہ دوسرے كى عدت بھى پورى كرے، دونوں عدتيں آپس ميں ايك دوسرے ميں داخل نہيں ہونگى؛ كيونكہ يہ دو مردوں سے ہيں، امام شافعى رحمہ اللہ كا يہى مسلك ہے.

پھر انہوں نے يہى قول عمر بن خطاب اور على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہما سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے:

" خلفاء ميں سے دو خلفاء كے يہى دو قول ہيں ان اقوال كا صحابہ كرام ميں كوئى مخالف نہيں، اور اس ليے بھى كہ يہ دو آدميوں كا حق ہے، لہذا ايك دوسرے ميں داخل نہيں ہو سكتا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 101 ).

پھر پہلے كى عدت ختم ہونے پر دوسرے شخص كے ليے نكاح كرنا جائز ہے، عدت ختم ہوتے ہى وہ نكاح كر سكتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" امام شافعى رحمہ اللہ كا نيا قول يہ ہے كہ: پہلے كى عدت ختم ہونے پر اسے نكاح كا حق حاصل ہے، اس كى اپنى عدت ميں اس عورت سے نكاح كرنے سے اسے منع نہيں كيا جا سكتا كيونكہ عدت تو نسب كو محفوظ اور نطفہ كو پاكيزہ كرنے كے ليے مشروع كى گئى ہے، اور يہاں نسب مرد كى طرف منسوب كيا جائيگا، تو يہ اس كے مشابہ ہوا كہ اگر وہ اس سے خلع كر كے پھر دوران عدت نكاح كر لے، يہ قول بہتر اور نظر كے بھى موافق ہے... " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 100 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قواعد كے اعتبار سے راجح يہ ہے كہ وہ اس كے ليے پہلے كى عدت ختم ہونے پر حلال ہو جائيگى، خاص كر جب وہ توبہ كر كے اللہ كى طرف رجوع كرتا ہے؛ كيونكہ يہ عدت تو اس كى اپنى ہى تھى " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 383 ).

دوم:

اگرچہ يہ نكاح باطل ہے مگر يہ ہے كہ نكاح شبہ ہونے كى بنا پر اس كى اولاد اسى كى طرف منسوب ہوگى، يہاں شبہ نكاح حكم شرعى سے جہالت ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب كوئى شخص كسى عدت والى عورت سے شادى كرے، اور دونوں يعنى عورت و مرد كو عدت كا علم بھى ہو، اور دوران عدت نكاح حرام ہونے كا علم ركھتے ہوں، اور وطئ كى حرمت بھى جانتے ہوں تو يہ دونوں زانى، دونوں كو زنا كى حد لگائى جائيگى، اور عورت كو مہر نہيں ملےگا، اور نہ ہى مرد كى طرف نسب كى نسبت كى جائيگى.

ليكن اگر وہ عدت سے جاہل ہوں يا اس كى حرمت كا علم نہ ركھتے ہوں، تو نسب ثابت ہوگا، اور حد نہيں لگائى جائيگى، اور مہر دينا واجب ہوگا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 103 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب