الحمد للہ.
لگتا ہے کہ یہ سوال ایسے شخص کے ذہن میں پیدا ہوا ہے جو سمجھتا ہے کہ دین اسلام کا سابقہ آسمانی مذاہب سے تعلق نہیں ہے، جبکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کی کوشش ہے کہ اسلام کو سابقہ ادیان سے الگ تھلگ کیا جائے۔ حالانکہ اس حوالے سے واضح قرآنی حقائق موجود ہیں کہ دین اسلام سابقہ ادیان کی ہی تکمیل کے لیے آیا ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی تعلیمات وہی ہیں جو سابقہ انبیائے کرام لائے اور سب کا پیغام ایک ہی جگہ سے حاصل شدہ ہے، جو کہ اللہ تعالی کی وحی ہے جس کی بدولت انسانیت ہدایت و سعادت کی روشنی سے بہرہ ور ہوئی۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ
ترجمہ: محمد صرف ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ [آل عمران: 144]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ
ترجمہ: یقیناً اللہ کے ہاں دین صرف اسلام ہے۔[آل عمران: 19]
ایک اور مقام پر فرمایا:
قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ
ترجمہ: آپ ان سے کہئے کہ ’’میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں۔ اور میں یہ نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک کیا جائے گا اور تم سے کیا کیا جائے گا؟ میں تو اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو محض ایک واضح طور پر ڈرانے والا ہوں‘‘ [الاحقاف: 9]
سابقہ انبیائے کرام پر ایمان لانے والے اہل ایمان سب کے سب عمومی طور پر مسلمان ہی تھے، وہ سب اسی اسلام کی وجہ سے ہی جنت میں بھی داخل ہوں گے، تاہم اگر ان میں سے کسی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا عہد پا لیا تو اب اس سے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع ہی قابل قبول ہو گی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چنانچہ اگر کوئی شخص تورات اور انجیل کی لائی ہوئی اس شریعت پر عمل پیرا ہو جس میں تحریف اور تبدیلی نہیں ہوئی تو وہ شخص بھی دین اسلام پر ہے، بالکل اسی طرح عیسی علیہ السلام کی بعثت سے پہلے جو لوگ اصل تورات کی شریعت پر عمل پیرا تھے، اور وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے حقیقی انجیل کی شریعت پر عمل پیرا تھے یہ سب بھی دین اسلام پر تھے۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " (27/370)
جب ہمیں اللہ تعالی نے یہ بتلا دیا ہے کہ دین اللہ تعالی کے ہاں اسلام ہی ہے، اور اللہ تعالی نے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں ان سب کی دعوت توحید کی دعوت تھی جو کہ عین اسلام ہے۔ تو اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالی کے ہاں لوگوں کے لیے پسندیدہ ترین دین اسلام ہی ہے، یعنی ایسا عقیدہ توحید اپنائیں جس میں ایمان کے مکمل چھ ارکان ہوں، اس میں حق، عدل اور اچھائی کی تمام اقدار موجود ہوں تو یہ وہی دین ہے جو اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو دے کر مبعوث فرمایا تھا، اور یہی دین دے کر اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء و الرسل جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب کی جانب ہم نے یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، لہذا میری ہی عبادت کرو۔ [الانبیاء: 25]
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دنیا ہو یا آخرت میرا سیدنا عیسی بن مریم سے تعلق لوگوں سے بڑھ کر ہے، تمام انبیائے کرام علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں الگ الگ ہیں لیکن دین ایک ہی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (3443) اور مسلم : (2365) نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ: ان کے دین کی بنیاد یعنی عقیدہ توحید یکساں ہے اور فروعی مسائل میں اگرچہ اختلاف ہے۔" ختم شد
" فتح الباری " (6/489)
ڈاکٹر عمر اشقر حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"قرآن کریم کی زبان میں اسلام کسی خاص دین کا نام نہیں ہے بلکہ تمام انبیائے کرام نے جو بھی دعوت دی ہے وہ دین اسلام ہی ہے، اس لحاظ سے یہ مشترک اسم ہے، چنانچہ سیدنا نوح علیہ السلام اپنے قوم کو کہتے ہیں:
وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
ترجمہ: اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین اسلام کے پیروکاروں میں سے ہو جاؤں۔[یونس: 72]
اسی طرح ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم کو اللہ تعالی نے دین اسلام اپنانے کا ہی حکم دیا تھا:
إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ: جب اسے اس کے رب نے کہا: اسلام لے آؤ، تو اس نے کہا: میں رب العالمین کے لیے مسلمان ہو گیا۔ [البقرۃ: 131]
اسی طرح سیدنا ابراہیم اور یعقوب علیہما السلام نے اپنے بیٹوں کو تاکیدی نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا:
فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
ترجمہ: تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔ [البقرۃ: 132]
اس تاکیدی نصیحت کے جواب میں یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے جواب دیا:
نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
ترجمہ: ہم تیرے معبود اور تیرے آبا و اجداد ابراہیم ، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی ہی عبادت کریں گے جو کہ ایک ہی معبود بر حق ہے، اور ہم سب اسی کے لیے اسلام لاتے ہیں۔ [البقرۃ: 133]
اسی طرح سیدنا موسی علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں:
يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُواْ إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ
ترجمہ: اے میری قوم! اگر تم اللہ تعالی پر ایمان لے آئے ہو تو پھر اسی پر مکمل بھروسا کرو اگر تم سب مسلمان ہو۔[یونس: 84]
اسی طرح حواریوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام سے کہا تھا:
آمَنَّا بِاللهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
ترجمہ: ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں، اور گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ [آل عمران: 52]
اہل کتاب میں سے کچھ نے جب قرآن کریم کی تلاوت سنی تو کہنے لگے:
قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ
ترجمہ: ان سب نے کہا: ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یقیناً یہ ہمارے رب کی جانب سے حق ہے، یقیناً ہم اس سے پہلے بھی مسلمان ہی تھے۔[القصص: 53]
تو ان سب آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام ایک نعرہ تھا جو تمام انبیائے کرام اور ان کے پیروکاروں کی زبان پر قدیم زمانے سے لے کر نبوت محمدیہ کے زمانے تک چلا آ رہا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: " الرسل والرسالات " (ص/243)
لیکن سابقہ انبیائے کرام اور رسولوں کی صرف شریعتیں یعنی فقہی احکامات ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے منسوخ ہوئی ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسی شریعت سے نوازا ہے جو ہر وقت اور جگہ کے لیے نہایت موزوں ہے، اور سب لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اسی شریعت کی اتباع کریں اور پہلے جن انبیائے کرام کی شریعت پر عمل پیرا رہے ہیں انہیں ترک کر دیں۔
بلکہ بعض اہل علم تو یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ سابقہ انبیائے کرام کی شریعت میں سے صرف جزئیات ہی منسوخ ہوئی ہیں جبکہ کلیات اور اصولی چیزیں وہ تو سب میں یکساں موجود ہیں۔
جیسے کہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسے کلی قواعد جو ضرورت، یا سہولت یا آسائش سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے کچھ بھی منسوخ نہیں ہوا، صرف چند جزئی امور منسوخ ہوئے ہیں، اس بات کی دلیل استقرا ہے ۔۔۔ بلکہ کچھ اصولیوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ضروریات کا ہر دین اور ملت میں خیال رکھا گیا ہے۔۔۔ یہی معاملہ سہولت اور آسائش کا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ
ترجمہ: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کا ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ دین قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ [الشوری: 13]
ایسے ہی فرمایا:
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ
ترجمہ: آپ اسی طرح ڈٹ جائیں جیسے رسولوں میں سے اولو العزم ڈٹ گئے تھے۔[الاحقاف: 13]
اسی طرح اللہ تعالی نے بہت سے انبیائے کرام کا تذکرہ فرمانے کے بعد کہا:
أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ
ترجمہ: یہی انبیائے کرام ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی، پس آپ انہی کے طریقے پر چلیں۔ [الانعام: 90]
اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ:
وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ
ترجمہ: اور وہ آپ کو کس طرح فیصل بناتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تورات ہے اس میں اللہ کا فیصلہ موجود ہے۔[المائدۃ: 43] " ختم شد
" الموافقات " (3/365)
ڈاکٹر عمر اشقر حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"سابقہ ادیان و مذاہب کا مطالعہ کرنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ تمام ادیان کے بنیادی امور یکساں ہیں، پہلے ایسی نصوص کا تذکرہ گزر چکا ہے جس میں سابقہ امتوں کے لیے نماز، زکاۃ، حج اور حلال کھانا کھانے سے متعلق اللہ تعالی کے شرعی احکامات کا ذکر موجود ہے، تاہم ان میں پایا جانے والا اختلاف کچھ ذیلی جزئیات سے تعلق رکھتا ہے، لہذا نمازوں کی تعداد، شرائط، ارکان، زکاۃ کی مقدار، اور حج کی جگہ وغیرہ ہر شریعت کے الگ الگ ہو سکتے ہیں، نیز کسی کام کو ایک شریعت میں اللہ تعالی حلال فرما دیتا ہے، اور دوسری شریعت میں کسی حکمت کے تحت اسی کام کو حرام قرار دے دیتا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: " الرسل والرسالات " (ص/250)
الغرض یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اسلام تمام انبیائے کرام کا دین ہے، چنانچہ دین اسلام کا ظہور ہمارے جد امجد سیدنا آدم علیہ السلام کے عہد سے ہوا، اور تمام رسولوں کی دعوت دین اسلام کی دعوت ہی تھی کہ تمام عقائد جبکہ فروعی مسائل مثلاً: نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وغیرہ یہ سب بھی تمام سابقہ شریعتوں میں موجود تھے، چنانچہ نماز اور زکاۃ کے حوالے سے اللہ تعالی نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا
ترجمہ: اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاۃ کا حکم دیتے تھے، اور وہ اپنے رب کے ہاں بڑے پسندیدہ تھے۔[مریم: 55]
سابقہ اقوام میں روزوں کی فرضیت کے متعلق فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرۃ: 183]
اسی طرح حج بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے جاری و ساری ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
ترجمہ: اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کر دے، وہ سب آپ تک پیدل اور ہر دبلی پتلی سواری پر دور دور کے راستوں سے بھی آئیں گے۔[الحج: 27]
جبکہ کچھ احکامات میں اختلاف یا جزئیات میں اختلاف تو یہ اللہ تعالی کی اس وقت کے لوگوں سے مراد پر منحصر ہے؛ کیونکہ سابقہ اقوام کے شرعی احکامات خاص وقت تک کے لیے ہوتے تھے اور لوگوں کے اس وقت کے مفادات کو مد نظر رکھ کر جاری کیے جاتے تھے۔
واللہ اعلم