جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اپنے والد کی تجارتی سر گرمیوں میں اُنکے ساتھ تعاون کیا تھا، تو کیا والد کے حرام لین دین کا گناہ اسے بھی ملے گا؟

174652

تاریخ اشاعت : 18-01-2015

مشاہدات : 4989

سوال

سوال: میری عمر 21 سال تھی جس وقت میں نے اپنے خاندانی کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کیا، اس کیلئے میں اپنے والد کی یومیہ کاروباری مصروفیات ، اور کچھ انتظامی اصول و ضوابط کے بنانے میں اپنا تعاون پیش کرتا تھا، جس وقت میں نے تعاون کرنا شروع کیا تھا اس وقت ہماری تجارت واقعی قرضوں تلے دبی ہوئی تھی، یہ قرضے ایکسپورٹرز کے تجارتی سامان، اور سودی بینکوں کے قرضوں کی شکل میں تھے۔مجھےسود کی حرمت کا بخوبی علم نہیں تھا، لیکن جس وقت مجھے سود کی حرمت سمجھ میں آئی تو میں نے سود سے پاک کام کرنے کی ٹھان لی، لیکن ہماری صورتِ حال اس وقت بہت پتلی تھی، ہمیں گزشتہ قرضے اتارنے کیلئے نئے قرضے لینے پڑے۔ میں نے اپنے والد سے اس سنگین صورت حال کے بارے میں بحث و مباحثہ بھی کیا، اور اسلام میں سود کی حرمت کے بارے میں بھی گفتگو کی ، لیکن انہوں نے کہا کہ ہم کچھ پیسے کما کر ایک دن ایکسپورٹرز اور بینکوں کا قرضہ واپس کر دیں گے، لیکن وہ دن نہیں آیا، حتی کہ ہمارا کاروبار ٹھپ ہو گیا، اس واقعہ کو رونما ہوئے تقریباً دس سال گزر گئے ہیں، جن میں سے پانچ سال کاروبار میں گزر ے، اس لئے اب ہمارے ذمہ بینکوں اور تقریباً 20 افراد کے قرضے ہیں ، ان 20 میں سے کچھ تو بہت اونچے درجے کے امیر ہیں، اور کچھ انتہائی نچلے درجے کے ایکسپورٹر ہیں، جن کا مال ہمارے کاروبار کے ٹھپ ہو جانے کی وجہ سے ضائع ہو گیا تھا ،کیونکہ ہم انکے پیسے واپس نہیں کر سکے۔
میرا آپ سے پہلا سوال یہ ہے کہ:
کیا اس قرضے کے بارے میں مجھ سے پوچھ گچھ ہوگی؟ حالانکہ میں کاروبار میں مکمل طور پر قرضوں کی لین دین یا کاروباری منصوبہ بندی کرنے کا ذمہ دار نہیں تھا، اور کیا میں سودی لین دین کا ذمہ دار ہوں، کیونکہ میں توسود سے بچنے کی کوشش کرتا تھا، لیکن ایسا کر بھی نہیں سکا کہ اپنے والد کو مشکلات میں گھِرا ہو ا اکیلا چھوڑ دوں۔
میرا دوسرا سوال زکاۃ کے بارے میں ہے: میرے پاس ذاتی استعمال کیلئے گاڑی ہے، اور میرا بینک اکاؤنٹ منفی ہے، جبکہ ماہانہ تنخواہ وصول کرتا ہوں، اور میں اکیلا ہی والدین سمیت اپنے خاندان کی کفالت کر رہا ہوں، میری بیوی کے پاس کچھ سونا ہے، جس میں سے اکثر حصہ میری بیوی کیلئے میرے والدین نے خریدا تھا، اور یہ سونا مجھ پر اور میرے خاندان پر قرضے کی ادائیگی کیلئے ناکافی ہے، تو کیا مجھے اس سونے کی زکاۃ دینی پڑے گی؟ اگر جواب : ہاں میں ہو تو کیا میں قرضہ اور زکاۃ دنوں چیزیں ادا کروں؟ یہ بات علم بھی ہے کہ اگر مجھے زکاۃ ادا کرنی پڑی تو میں اس کیلئے قرضہ اٹھا کر ہی زکاۃ دونگا۔
اسی طرح میری والدہ کے پاس کچھ سونا ہے، تو کیا اس میں سے زکاۃ میرے والدصاحب نکالیں گے؟ والد صاحب کے پاس بھی تھوڑی بہت نقدی موجود ہے، اور عنقریب اس نقدی کی زکاۃ ضرور نکالیں گے۔اس ظرح مجموعی زکاۃ میری تین ہفتوں کی تنخواہ کے برابر ہوگی، میرے ذکر کردہ ان حالات میں اسلام کا میرے بارے میں کیا حکم ہے؟
شیخ ! میں یقیناً آپکے تعاون کا بے حد قدر دان رہوں گا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

پہلی بات:

سودی معاملات میں ملوّث ہونا جائز نہیں ہے، چاہے اس کے بارے میں آپ کا والد آپکو حکم ہی کیوں نہ کرے،  اس لئے آپ پر یہ واجب تھا کہ جس وقت آپکو سودی لین دین کی حرمت  کا علم ہوا تو آپ سودی کام چھوڑ دیتے، چاہے آپ کے کام چھوڑنے کی وجہ سے آپ کے والد ناراض ہو جاتے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (کسی مخلوق کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی) احمد: (1041)

 آپ سے صرف انہیں سودی معاملات کے بارے میں پوچھا جائے گا، جو آپ نے خود  طے کئے، یا ان میں  آپ نے شراکت کی۔

اور اگر آپ کے والد نے خود سودی معاملات  طے کئے ، اور آپکی طرف سے ان سودی معاملات میں کسی قسم کا کوئی تعاون شامل نہیں تھا، یا آپ اس میں خود شریک نہیں تھے، تو آپ سے ان کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا، چاہے   جن  کاروباری معاملات میں  آپ نے تعاون پیش کیا ہے وہ اسی سودی قرض  کی رقم پر قائم تھے۔

اس وقت آپ پر جو لازم ہے وہ  یہ ہے کہ آپ سچی توبہ کریں، اور سر زد ہونے والی غلطیوں پر ندامت  کا اظہار کریں، اور آئندہ کسی بھی سودی لین دین  میں ملوّث ہونے سےبچیں۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (95005) اور (162423) کا مطالعہ کریں

دوسری بات:

کسی مسلمان پر اسکی گاڑی یا گھر پر زکاۃ واجب نہیں ہے، بشرطیکہ یہ تجارتی مقاصد کیلئے نہ ہوں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (مسلمان کے  غلام، اور اسکے گھوڑے میں کوئی صدقہ [زکاۃ]نہیں ہے) بخاری: (1463) مسلم: (983)

مزید کیلئے سوال نمبر: (20057) کا مطالعہ کریں۔

تیسری بات:

سونے کے زیور سے زکاۃ ادا کرنے کے بارے میں وضاحت یہ ہے کہ: اگر  یہ زیور ہر خاتون [آپکی بیوی اور والدہ]کی ملکیت ہے  تو آپ  اور آپ کے والد کیلئے اس میں کوئی حق نہیں ہے، چاہے یہ مکمل سونا آپ کے والد نے اپنے ذاتی مال سے خریدا ہو؛ کیونکہ انہوں نے یہ سونا  اِن خواتین کو دے  کر اپنی ملکیت سے خارج کر دیا ہے، اب انہیں اسے اپنی ملکیت میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔
اور اگر یہ زیور ابھی تک آپکے والد ہی کی ملکیت میں ہے، اور انہوں نے یہ سونا ان خواتین  [اپنی بہو، اور بیوی] کو عاریۃً دیا تھا  تو اس سارے سونے کو فروخت کر کے قرض خواہوں کے قرضے واپس کرنا واجب ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (غنی آدمی کا [قرضے کی ادائیگی سے]ٹال مٹول کرنا ظلم ہے) بخاری: (2288) مسلم: (1564)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جو شخص لوگوں کا مال واپس کرنے کی نیت سے لے تو اللہ تعالی اسکی ادائیگی [کیلئے مدد] فرماتا ہے، اور جو شخص  لوگوں کا مال ہڑپ کرنے کی غرض سے لے تو اللہ تعالی اسکو تباہ کر دیتا ہے)بخاری: (2387)

چوتھی بات:

سونے کے زیور کی زکاۃ   مالک کے ذمہ ہے، چنانچہ اگر آپکی بیوی نصاب  کے برابر سونے کی مالک ہے تو اسی پر زکاۃ لازم ہوگی، اور سونے کا نصاب 85 گرام ہے،  چاہے یہ سونا زیور کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں ، اور اگر آپکی بیوی کے پاس اس سونے کے علاوہ  کوئی اور مال نہیں ہے ، اور اس سونے میں زکاۃ واجب ہو رہی ہے، تو اس سونے میں سے اتنی مقدار فروخت کرنا واجب ہے  جس سے اسکی زکاۃ ادا ہوسکے۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (50273) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں، اور آپکی والدہ کیلئے بھی زکاۃ کے متعلق یہی حکم ہے۔

آپکی بیوی اور اسی طرح والدہ آپکے والد کو قرضہ کی ادائیگی کیلئے اپنی زکاۃ  دے سکتی ہیں، اس بارے میں مزید تفصیلات کیلئے آپ سوال نمبر: (43207) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب