جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

والد نے والدہ کو مارا تو بیٹے نے باپ کی پٹائی کر دی

175164

تاریخ اشاعت : 26-03-2018

مشاہدات : 9793

سوال

اس لڑکے کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے جو اپنی والدہ کے دفاع میں اپنے باپ کو مارے؛ جیسا کہ ایک شخص کہ جس کا باپ اس کی ماں کو مار رہا تھا تو اس  نے باپ کو مارا اور اس کے سامنے چیخا چلایا۔ اگر یہ معاملہ غصے اور طیش کی حالت میں ہوا ہو تو بیٹے کو کیا کرنا چاہیے؟ اب بیٹے کو شدید ندامت بھی ہے اور اسے اللہ سے ڈر بھی لگ رہا ہے، اب اسے افسوس ہو رہا ہے کہ کاش وہ ایسا نہ کرتا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اولاد پر والدین کا حق بہت بڑا ہوتا ہے چاہے والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفاً وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ )
ترجمہ:  اور اگر میرے  ساتھ شرک کرنے پر والدین تجھ پر دباؤ ڈالیں  کہ جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت مت کر، تاہم دنیا میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے رہو، اور ان لوگوں کے راستے پر چلو جو میری طرف متوجہ ہیں، تم نے میری طرف ہی لوٹنا ہے تو میں تمہیں بتلاؤں گا جو تم کرتے رہے ہو۔[لقمان:15]

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے چاہے دونوں مشرک ہی کیوں نہ ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: (وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ ) اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا کہ تم   صرف ایک اللہ کی عبادت کرو گے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ گے۔[ البقرة :83] اس حوالے سے بہت سی آیات موجود ہیں۔ ان کے علاوہ صحیح بخاری اور مسلم میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا، اللہ تعالی کے ہاں سب سے محبوب عمل کون سا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وقت پر نماز کی ادائیگی) پھر میں نے عرض کیا اس کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (والدین کے ساتھ حسن سلوک) میں نے پھر عرض کیا اس کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ کی راہ میں جہاد) اس کے بعد ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اتنی بات ہی بتلائی لیکن اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مزید پوچھتا تو آپ مجھے مزید بھی بتلا دیتے" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر"(3/361)

شیخ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت اللہ تعالی نے اپنے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا  کہ شرک مت کرو یعنی عقیدہ توحید اپناؤ تو ساتھ ہی والدین کا حق ادا کرنے کا بھی حکم دے دیا اور فرمایا: (وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ) یعنی ہم نے انسان سے پختہ عہد لیا اور پھر اس عہد کو وصیت کا درجہ دیا، ہم اس وصیت کی تکمیل کے بارے میں انسان سے ضرور پوچھیں گے کہ کیا انسان نے اس کو تحفظ دیا یا نہیں؟ تو ہم نے انسان کو والدین کے بارے میں تاکیدی حکم دیا اور اسے کہا: (اُشْكُرْ لِي) [میرا شکر ادا کرو] یعنی میری بندگی کرتے ہوئے اور میرے حقوق ادا کرتے ہوئے، نیز میری عطا کردہ نعمتوں کو  میری ہی نافرمانی میں استعمال مت کرو، پھر فرمایا: ( وَلِوَالِدَيْكَ) یعنی والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اس کیلیے نرم گفتگو کرو، پیار سے بولو، ان کی خدمت کرو اور ان کے سامنے دھیمے بول بولو، ان کی عزت اور احترام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو، ان کی ضروریات پوری کرو، انہیں قولی یا فعلی کسی بھی طرح سے تکلیف نہ پہنچاؤ" ختم شد
تفسیر سعدی (1/648)

تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل نے اپنے والد کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ سنگین قسم کا گناہ ہے، سائل کی ذمہ داری یہ بنتی تھی کہ  کسی بھی ناگوار چیز کو دیکھ کر اپنے غصے پر قابو رکھتا  جیسے کہ باپ کی جانب سے ماں کو زد و کوب کرنے کا معاملہ ہے، غصے کی حالت میں اللہ کا ذکر کرتا اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا۔

اسی طرح سائل کو ایسا طریقہ اور سلیقہ اپنانا چاہیے تھا جو والد کا غصہ ٹھنڈا کر دیتا  اور ایسے ہی اپنی والدہ کے سامنے ڈھال بن  کر والد کو مارنے سے باز رکھتا، یا پھر والدہ کو الگ کمرے میں داخل کر دیتا یا انہیں گھر سے باہر لے جاتا یا اسی طرح کا کوئی اور اقدام کر لیتا۔

طیش اور غضب  کے فوری اثرات سے بچنے کیلیے مزید معاون وسائل جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (45647) کا جواب ملاحظہ کریں۔

توبہ کا طریقہ کار:

سچے دل سے توبہ کرے۔

ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اس پر شرمسار ہو۔

آئندہ ایسا اقدام کرنے سے مکمل گریز کا عزم کرے۔

والد سے اپنے کئے کی معافی مانگیں؛ کیونکہ سوال میں مذکور اقدام  دو امور سے متعلق ہے: پہلا یہ کہ [والدین کے اکرام  سے متعلقہ فرامین الہیہ پر عمل نہ کر کے]اللہ کا حق پامال کیا، اور دوسرا والد کا حق ؛ تو اللہ کے حق کیلیے سچی توبہ ضروری ہے، جبکہ والد کے حق کیلیے ان سے معافی مانگنا ضروری ہے، والد صاحب سے معافی مانگتے ہوئے الحاح کے ساتھ معذرت کریں، اور پھر والد صاحب کی اس وقت تک ہر ممکنہ خدمت میں لگے رہیں جب تک وہ آپ کو معاف نہیں کر دیتے۔

آپ سے اگرچہ یہ بہت بڑی غلطی ہوئی ہے اور یہ واضح گناہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم آپ کو اس بات سے بھی خبردار کرنا چاہیں گے کہ اس کی بنا پر آپ نے اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا، اگر آپ سچی توبہ کرتے ہیں تو اللہ تعالی کی رحمت ضرور شامل حال ہو گی۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى )
ترجمہ: اور بیشک میں معاف کرنے والا ہوں جو توبہ کرے، ایمان  لائے اور نیک عمل کرنے کے بعد راہ راست پر رہے۔[ طہ:82]

ایسے ہی فرمایا:
( إِنَّ اللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذالِكَ لِمَنْ يَشَاءُ )
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اس کے علاوہ وہ جس کے لیے جو چاہے بخش دے گا۔[ النساء:48]

ایک اور مقام پر فرمایا:
( قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )
ترجمہ: کہہ دیں: اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے میرے بندو! اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا، بیشک اللہ تعالی سارے گناہ معاف کرنے پر قادر ہے، اور بیشک وہ نہایت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ [الزمر:35]

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت توبہ کرنے والوں کے متعلق ہے، اور اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا ہے کہ  اللہ تعالی تمام گناہ معاف کرنے والا ہے بشرطیکہ وہ سچے دل سے توبہ کریں، اپنی کارستانی پر پشیمان ہوں، اور گناہ ترک کر دیں، پھر دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم بھی کریں، اور اسی کو توبہ کہتے ہیں" ختم شد
"مجموع الفتاوى"(10/317)

والدین کے حقوق کے متعلق مزید جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (30893)  اور (13783)  کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب