جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

اس بات کے دلائل کہ دینِ اسلام ہی صحیح مذہب ہے۔

سوال

میں چاہتا ہوں کہ حقیقی مسلمان بنوں اسی لیے میں یہ سوال رکھ رہا ہوں کہ اسلام پر کار بند ہونے کی کیوں ضرورت ہے؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ: آپ یوں سمجھیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوں اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے سنا، تو کون سی ایسی چیز ہے جو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی وحی یعنی کتاب و سنت کی تصدیق کرنے پر مجبور کر دےگی ؟ اسی طرح مجھے قرآن کریم کا یہ چیلنج بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ قرآن کہتا ہے: "اس جیسا کلام لا کر دکھائیں اگر وہ سچے ہیں۔۔۔" جس نتیجے پر میں پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی بھی فن میں کتاب لکھ لے تو وہ اسی فن کی دوسری کتابوں کے مشابہ ہوتی ہے اگرچہ بعض جزئیات میں فرق ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پر دونوں میں یکسانیت ہوتی ہے، تو ایسے میں قرآن کریم کے اعجاز کی کس طرح وضاحت ہو سکتی ہے؟
ممکن ہے کہ کسی مسلمان کی جانب سے یہ سوال عجیب و غریب معلوم ہو ، لیکن اللہ تعالی کو میری نیت کا علم ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام کی حقانیت اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کے بے شمار اور لا تعداد دلائل  ہیں؛ تاہم درج ذیل دلائل کسی منصف ، عاقل اور مکمل دل جمعی و اخلاص کے ساتھ تلاش حق میں مگن شخص کو قائل کرنے کیلیے کافی ہیں، ان دلائل کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

اول:

فطری دلائل:

اسلام فطرت سلیمہ  سے مکمل مطابقت رکھتا ہے، اسی کی جانب اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ )
ترجمہ: لہذا  یکسو ہو کر اپنا رخ دین  پر مرتکز کر دو۔ یہی فطرت الٰہی  ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی اس خلقت  میں کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا یہی درست دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔  [الروم:30 ]

اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی نومولود [دینِ ]فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کہ جانور سے صحیح سالم جانور پیدا ہوتا ہے ،کیا ان میں سے کوئی کان کٹا بھی ہوتا ہے؟!)
اس روایت کو بخاری: (1358) اور مسلم: (2658) نے روایت کیا ہے۔

حدیث کے عربی الفاظ: " تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح جانور سلیم الاعضاء اور مکمل پیدا ہوتا ہے اس میں کوئی عیب نہیں ہوتا ، اور کان وغیرہ کاٹنے کے مراحل اس کی پیدائش کے بعد ہوتے ہیں۔
بالکل اسی طرح ہر انسان فطری طور پر مسلمان  پیدا ہوتا ہے، اس کا  اسلام سے کسی بھی قسم کا انحراف درحقیقت فطرت سے انحراف پیدا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی بھی چیز نہیں پاتے جو کہ فطرت سے متصادم ہو، بلکہ اسلام کے عقائد، عملی عبادات سب کچھ فطرتِ سلیمہ سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں، جبکہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں ایسے نظریات اور عقائد موجود ہیں جو کہ فطرت سے یکسر متصادم ہیں، یہ چیز غور و فکر کرنے والوں کیلیے بالکل عیاں ہے۔

دوم:

عقلی دلائل:

شرعی نصوص نے عقل کو بہت زیادہ مخاطب کیا ہے، اور عقل کی رہنمائی کی ہے کہ وہ عقلی دلائل و براہین پر غور و فکر کرے، اسلام کی حقانیت پر دلالت کرنے والے قطعی  دلائل پر غورو فکر کرنے کی دعوت قرآن مجید میں کئی بار دی گئی ہے جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آَيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ )
ترجمہ: ہم نے بابرکت کتاب آپ کی جانب نازل کی ہے تا کہ اس کی آیات پر عقل والے غور و فکر کریں اور  نصیحت حاصل کریں۔[ص:29]

قاضی عیاض رحمہ اللہ اعجازِ قرآن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن مجید میں شریعتوں کے علوم اور عقل کو دلائل کے ذریعے لگام دینے کے طریقے بیان کئے ہیں،اسی طرح  تمام اقوام کے فرقوں پر انتہائی ٹھوس اور واضح دلائل کے ساتھ رد کیا ہے، جو کہ  معانی میں دقیق مگر الفاظ  میں انتہائی سادگی کا نمونہ ہیں،آج تک  تکلف اور تصنّع کا سہارا لیکر جن  لوگوں نے قرآن جیسا کلام لانے کی کوشش کی، ناکام ہی رہے" انتہی
" الشفا " (1/390)

اس لیے وحی جو کہ کتاب و سنت کی صورت میں ہے، اس کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے عقل ناممکن سمجھے یا تسلیم نہ کرے، اسی طرح کوئی ایک بھی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو کہ بدیہی عقل  یا عقلی قیاس سے متصادم ہو؛ بلکہ اہل باطل کوئی بھی اپنا قیاسِ  باطل ثابت کرنے کیلیے لائیں تو یہ قرآن عقلی بیان کے ساتھ واضح ترین انداز میں اس کا رد کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا )
ترجمہ: جب بھی یہ کافر آپ کے پاس کوئی مثال (اعتراض) لائیں تو اس کا ٹھیک اور برجستہ  جواب اور بہترین توجیہ ہم نے آپ کو بتلا دیں۔ [الفرقان :33]

اس آیت کی تفسیر کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں اللہ تعالی نے یہ خبر دی ہے کہ کفار کوئی بھی عقلی قیاس اپنے باطل کو ثابت کرنے کیلیے تمہارے پاس لیکر آئیں تو اللہ تعالی حق بات اس کے مقابلے میں لے آتا ہے، اللہ تعالی ایسی دلیل، مثال اور وضاحتی بیان  لے آتا ہے جو ان کے کلام سے زیادہ واضح ہوتا ہے اور کفار کے لائے ہوئے قیاس سے کہیں اچھے انداز کے ساتھ حق واضح کرتا ہے۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (4/106)

قرآن کریم میں عقلی دلائل کی مثالوں میں سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے:
( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآَنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا)
ترجمہ: کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے۔ اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلاف  پاتے  ۔[النساء :82]

تفسیر قرطبی میں اس آیت کی تفسیر کچھ یوں ہے:
"یہ یقینی امر ہے کہ بہت زیادہ کلام کرنے والے  شخص کی باتوں میں تناقضات اور اختلاف بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، چاہے اختلاف  کا تعلق  کلام کے وصف اور لفظ سے  ہو، یا معنوی معیار میں کمی کی بنا پر ہو، یا تناقض  کی بنا پر ہو، یا سراسر جھوٹ کی وجہ سے، لیکن اللہ تعالی نے قرآن مجید نازل فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ قرآن مجید پر غور و فکر کریں؛  انہیں قرآن مجید میں بتلائی گئی غیبی خبروں اور راز و نیاز کی باتوں میں کوئی وصفی یا معنوی اختلاف نظر نہیں آئے گا، ان میں کسی قسم کا تناقض یا جھوٹ نہیں ملے گا۔" انتہی
"الجامع لأحكام القرآن " (5/290)

اسی طرح تفسیر ابن کثیر میں  ہے کہ:
"مطلب یہ ہے کہ اگر قرآن مجید خود ساختہ اور من گھڑت ہوتا جیسے کہ جاہل مشرک اور منافقین دل ہی دل میں ایسی باتیں کرتے پھر رہے ہیں تو انہیں قرآن مجید میں بہت سا اختلاف اور تناقض نظر آتا، لیکن قرآن مجید میں ایسا کچھ نہیں ہے، یہ اختلاف سے پاک صاف ہے، لہذا ثابت ہوا کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے ہے" انتہی
" تفسیر القرآن العظیم " (1/802)

سوم:

معجزے اور نبوت کی نشانیاں:

اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد معجزے عطا کر کے ، خرق عادت  امور، اور حسی نشانیاں عطا فرمائی تھیں، جو صداقتِ نبوت اور رسالت کی دلیل ہیں، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو دو ٹکڑے فرمایا، کھانے اور کنکریوں نے آپ کے سامنے تسبیح پڑھی، آپ کی انگلیوں سے پانی بہنے لگا، کھانے میں برکت ہو گئی اور دیگر ایسے  معجزے اور نشانیاں ہیں جنہیں بہت بڑی تعداد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ہم تک یہ واقعات صحیح سند کے ساتھ پہنچے جو کہ معنوی اعتبار سے تواتر کی حد تک پہنچتے ہیں اور ان سے یقین حاصل ہو جاتا ہے۔

جیسے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو پانی کم ہو گیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جتنا پانی بچا ہوا ہے وہ لے آؤ) تو صحابہ کرام ایک برتن لے کر آئے جس میں معمولی سا پانی تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پانی میں ڈالا اور پھر فرمایا: (آ جاؤ با برکت اور پاک پانی کی جانب ، یہ برکت اللہ تعالی کی طرف سے ہے) تو میں نے دیکھا کہ پانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے  پھوٹ رہا تھا، اور ہم کھانے کی تسبیحات سنتے تھے حالانکہ اسے کھایا جا رہا ہوتا تھا"  بخاری: (3579)

چہارم:

پیشین گوئیاں:

پیشین گوئیوں سے یہاں وہ خبریں مراد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلائی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خبریں لوگوں کو بتلا دیں، چاہے یہ خبریں آپ کی زندگی میں پوری ہوئیں یا وفات کے بعد ۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے بارے میں جو بھی پیشین گوئی فرمائی وہ مستقبل میں بالکل اسی طرح رونما ہو ئی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو وحی کے ذریعے بتا دیتے تھے اور آپ کو ایسے غیبی امور دکھا دیتے  تھے جن تک وحی کے بغیر پہنچنا ممکن نہیں، مثال کے طور پر:  حدیث ہے کہ: (اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک حجاز سے ایک آگ نمودار نہ ہو جو بصری میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی)
یہ  حدیث صحیح بخاری: (7118) اور مسلم: (2902) میں موجود ہے۔

یہ واقعہ سن 654ہجری کو ایسے ہی رونما ہو چکا ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتلایا تھا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً 644 سال بعد، مؤرخین نے اس چیز کا ذکر اپنی کتابوں میں کیا ہے جیسے کہ ابو شامہ مقدسی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: "ذیل الروضتین" میں لکھا ہے، ابو شامہ رحمہ اللہ ان علمائے کرام میں سے ہیں جن کی زندگی میں یہ واقعہ رونما ہوا تھا، اسی طرح اس واقعہ کو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے  "البداية والنهاية" (13/219) میں لکھا ہے کہ:
"پھر اس کے بعد چھ صد چوّن  کا سال شروع ہوا اور اسی سال میں سر زمینِ حجاز پر آگ نمودار ہوئی جس کی وجہ سے بصری میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو گئیں، بالکل اسی انداز سے جیسے بخاری و مسلم کی متفقہ روایت میں اس کی پیشین گوئی کی گئی تھی، اس آگ کے بارے میں شیخ  امام علامہ حافظ شہاب الدین ابو شامہ مقدسی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ذیل الروضتین اور اس کی شرح میں اس کے متعلق لکھا ہے، اس کی تفاصیل انہوں نے حجاز سے دمشق آنے والے بہت سے خطوط کی روشنی میں لکھی ہیں ان خطوط میں اس آگ کو مشاہداتی طور پر دیکھنے والوں نے اس کی مکمل تفاصیل بھی ذکر کی ہیں کہ یہ آگ کیسے لگی اور اس کے علاوہ بھی دیگر متعلقہ امور  ان میں موجود تھے۔

ابو شامہ نے جو کچھ وہاں ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: "دمشق میں مدینہ نبویہ -اس شہر کے مکین پر درود و سلام ہوں- سے خطوط موصول ہو رہے ہیں کہ ان کے ہاں 5 جمادی ثانیہ کو اس سال آگ لگی  ہے اور یہ خط 5 رجب کو لکھا گیا تھا، جو کہ ہم تک 10 شعبان کو پہنچا، پھر کہتے ہیں:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم، سن پانچ صد چوّن ہجری کو دمشق میں مدینہ سے شعبان کے اوائل میں ایک خط موصول ہوا، اس  خط میں مدینہ منورہ میں بپا ہونے والے ایک بہت ہی عظیم معاملے کی تفصیلات ہیں جس کے بارے میں روایت صحیح بخاری اور مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک سرزمینِ حجاز سے ایک آگ نہ نکلے  جس کی روشنی میں بصری کے اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی)" تو اس پر مجھے ایسے شخص نے بتلایا جسے میں معتمد سمجھتا ہوں اور اس نے خود اس روشنی کو دیکھا بھی ہے کہ اس تک یہ بات پہنچی کہ انہوں نے اس کی روشنی میں تیماء نامی جگہ پر کتابیں لکھیں ہیں" پھر کہتے ہیں کہ: ان راتوں میں ہمارے ہاں ایسا سماں تھا کہ گویا ہر گھر میں چراغاں ہے [یعنی روشنی ہے] اور اتنی بڑی آگ ہونے کے با وجود اس کی کوئی تپش یا گرمی نہیں تھی، یہ آگ اللہ تعالی کی بہت بڑی نشانی تھی" انتہی

پنجم:

شمائل اور صفاتِ محمدی :

نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کیلیے سب سے بڑی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت  اور وہ تمام اعلی ترین اخلاقی اقدار ہیں جن سے آپ متصف تھے، اور جن عظیم صفات کی وجہ سے آپ انسانیت کی معراج تک پہنچ چکے تھے یہ بلند مقام و مرتبہ اتنا عظیم ہے کہ یہاں تک صرف کوئی اللہ کا نبی اور رسول ہی پہنچ سکتا ہے، کوئی بھی ایسی مثبت صفت  نہیں جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت نہ دی ہو، آپ نے اخلاق حمیدہ پر عمل پیرا ہونے کیلیے خوب  ترغیب دلائی اور خود اس کا عملی نمونہ بھی بن کر دکھایا، جتنی بھی بد اخلاقیاں تھیں سب سے آپ نے روکا اور ان سے خبردار فرمایا نیز خود ان سے دور بھی رہے،  یہاں تک کہ آپ کا اخلاقی معیار اتنا بلند ہو گیا کہ یہ آپ کی نبوت اور رسالت کا باعث بنا؛ کیونکہ آپ حسن اخلاق اور اعلی صفات کے مفہوم کو صحیح سمت دینے اور ان کی نشر و اشاعت کے درجے تک پہنچ چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورِ جاہلیت کے اندر پیدا ہونے والی اخلاقی گراوٹ  کو ختم کر کے اسے عروج  عطا کیا، جیسے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کیلیے مبعوث کیا گیا ہے)
اسے امام احمد رحمہ اللہ : (8739) نے روایت کیا ہے اور ہیثمی رحمہ اللہ "مجمع الزوائد" میں کہتے ہیں کہ اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں، اسی طرح عجلونی نے بھی اس کی سند کو "کشف الخفا" میں صحیح کہا ہے، اسی طرح البانی رحمہ اللہ نے بھی  صحیح الجامع: (2349) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کئے جانے والے معجزے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت  کی دلیل تھے؛ ہوتا یوں تھا کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے کہتے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث کردہ نبی ہیں تو کچھ لوگ آپ کو چیلنج کرتے کہ اس کی دلیل دکھاؤ تو اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو معجزہ دے کر آپ کی تائید فرماتے۔

معجزہ خرق عادت چیز ہوتی ہے، بسا اوقات اللہ تعالی کی طرف سے معجزہ کسی چیلنج کے جواب میں نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی جھوٹا ہونے کی  طعن زنی کے سیاق میں ہوتا تھا، ایسی صورت میں معجزہ صحابہ کرام کے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کا باعث بنتا تھا۔

ششم:

دعوتِ محمدی کا جوہر:

اصل میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا خلاصہ اور جوہر  یہ تھا کہ صحیح عقائد کو شرعی اور فطرتِ سلیمہ کے اصولوں پر پروان چڑھائیں، آپ کی دعوت اللہ تعالی پر ایمان کی دعوت ، اور الوہیت و  ربوبیت میں صرف اسی ایک پر ایمان لانے کی دعوت تھی، اس دعوت کی روشنی میں عبادت کی حقدار ذات صرف ایک اللہ کی ذات ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی ہی اس کائنات کا خالق، مالک، مدبّر، مختار کل اور حاکم ہے، وہی نفع نقصان کا مالک ہے، وہی تمام مخلوقات کو رزق دینے کا مالک ہے، کوئی بھی اس کے اختیارات میں اس کا شریک نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر یا ہم پلہ  ہے، اللہ تعالی کی ذات شراکت دار، ہم سر، عدیل اور ثانی سے پاک ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ(1)اللَّهُ الصَّمَدُ(2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ(3)وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ )
ترجمہ: آپ کہہ دیں: اللہ ایک ہی ہے [1] اللہ بے نیاز ہے [2] اس نے کسی کو نہیں جنا اور نہ ہی وہ جنا ہوا ہے [3] اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔[الإخلاص:1-4]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا )
ترجمہ: آپ ان سے کہہ دیجئے کہ : میں تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں ۔ [ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ] میری طرح وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ لہذا جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرے۔   [الكهف:110]

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت  شرک کی تمام صورتوں اور شکلوں کو منہدم کر  کے جن و انس کو معبودانِ باطلہ سے آزادی مہیا کرتی ہے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی روشنی میں کسی پتھر، قبر یا تارے کی عبادت نہیں ہو سکتی، اسی طرح مادے، شہوت، ہوس ، بادشاہ اور اس دھرتی پر موجود کسی بھی طاغوت کی عبادت نبوی دعوت کے بعد روا نہیں ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تمام بشریت کو لوگوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے ہے اور انہیں بت پرستی کی لعنت اور طاغوت کے مظالم سے نجات دلانے نیز اپنی باطل خواہشوں اور شھوات سے بچانے کی خاطر ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی با برکت دعوت سابقہ تمام ربانی رسالتوں   کی طرح عقیدہ توحید کی جانب بلاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی سابقہ تمام انبیائے کرام اور رسولوں پر ایمان لانے کی دعوت بھی دی ہے، ان کے احترام و اکرام  اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں پر بھی ایمان لانے کی ترغیب دی ہے، چنانچہ جو دعوت ایسی جامع ہو تو وہ بلا شک و شبہ دعوتِ حق ہے۔

ہفتم:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کے متعلق سابقہ کتابوں میں بشارتیں:

سابقہ انبیائے کرام کی کتابوں میں  دین اسلام اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خوشخبری کا ذکر موجود ہے، قرآن کریم بھی ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ تورات اور انجیل میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتیں  موجود ہیں، کچھ تو ایسی ہیں کہ جو عین آپ کے نام اور اوصاف کو بیان کرتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
( الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ )
ترجمہ: جو لوگ اس رسول کی پیروی  کرتے ہیں جو نبی امی ہے، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ رسول انہیں نیکی کا حکم دیتا اور برائی  سے روکتا ہے، ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں  کو حرام کرتا ہے، ان کے بوجھ ان پر سے اتارتا ہے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے  تھے۔ لہذا جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت اور مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ  نازل کی گئی ہے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں [الأعراف:157]

اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
( وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ )
ترجمہ: اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا۔ اے بنی اسرائیل ! میں یقیناً تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے نازل  ہوئی۔ اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد  ہوگا۔ [الصف:6]

اور دوسری طرف یہود و نصاری  کی کتابیں تورات اور انجیل میں اب بھی ایسی بشارتیں موجود ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور رسالت کے بارے میں خوشخبری دیتی ہیں، اور آپ کے کچھ اوصاف بھی بیان کرتی ہیں، حالانکہ ان بشارتوں کو مٹانے اور تبدیل کرنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن پھر بھی کچھ بچ گئیں، جیسے کہ  کتاب استثنا، باب: (33)  فقرہ نمبر:(2)  میں ہے کہ:

" اور اُس نے کہا خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر آشکارا ہوا ، وہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا"

اب یہاں پر "معجم البلدان" (3/301) میں ہے کہ: لفظ "فاران" میں را کے بعد الف ہے اور آخری حرف نون ہے، یہ عبرانی  سے عربی میں آیا ہے اور یہ مکہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جس کا ذکر تورات میں ملتا ہے، بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مکہ کی پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑی کا نام ہے۔
ابن ماکولا ابو بکر بن نصر بن قاسم بن قضاعہ القضاعی الفارانی الاسکندرانی کہتے ہیں کہ:  میں نے یہ سنا ہے کہ ان کی نسبت فاران کے پہاڑوں کی جانب ہے اور یہ حجاز میں واقع ہیں۔
اسی طرح تورات میں ہے کہ:
"خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے آشکارا ہوا اور فاران سے عیاں ہوا"
اس فقرے میں " خداوند سینا سے آیا " کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے گفتگو کی  اور " شعیر سے آشکارا ہوا "   میں شعیر سے مراد فلسطین کے پہاڑ ہیں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام پر وہاں انجیل نازل فرمائی، اور " اور فاران سے عیاں ہوا "سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قران کریم نازل ہونا مراد ہے" انتہی

ہشتم:

قرآن کریم:

سب سے عظیم ترین واضح اور جلیل القدر معجزہ ہے،  قرآن کریم مخلوق الہی  کیلیے قیامت کے دن تک مسلمہ حجت ہے، قرآن کریم میں کئی اعتبار سے معجزہ ہونے کی صلاحیت ہے، مثال کے طور پر:  اسلوبِ بیان کا  اعجاز، علوم کا اعجاز، شرعی اعجاز اور غیب و مستقبل سے تعلق رکھنے والے  امور کی خبریں بھی قرآن کے اعجاز میں شامل ہیں۔

اور اللہ  تعالی کے فرمان:
( فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ )
ترجمہ: تو لے آئیں وہ اس جیسا کلام اگر وہ سچے ہیں۔[الطور :34] کا مقصود ان لوگوں کا رد ہے جنہوں نے کہا تھا کہ یہ قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود سے گھڑ کر لائے ہیں، تو قرآن نے انہیں چیلنج کیا کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو وہ بھی اسی طرح کا کلام گھڑ لائیں !؛ کیونکہ اس دعوے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ان کے ہاں قرآن مجید جیسا کلام لانا انسانی قوت سے بالا تر نہیں ہے، تو اگر ان کا دعوی سچا ہے تو وہ اس جیسا قرآن کیوں نہیں لیکر آتے!؟ حالانکہ وہ بھی فصاحت و بلاغت کے شہسوار  تھے!

اللہ تعالی نے کفار کو یہ چیلنج کیا کہ وہ بھی قرآن مجید کے مقابلے میں کچھ لیکر آئیں لیکن وہ اس میں ناکام رہے، جیسے کہ قرآن کریم نے خود اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
( قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآَنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا )
ترجمہ: آپ ان سے کہہ دیں کہ: اگر تمام انسان اور جن سب قرآن جیسی کوئی چیز بنا لانے کے لئے جمع ہو جائیں  تو نہ لا سکیں گے خواہ وہ سب ایک دوسرے  کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں۔  [الإسراء:88]

اللہ تعالی نے انہیں یہ بھی کہا کہ قرآن مجید کی صرف دس سورتوں جیسی سورتیں ہی لے آؤ، لیکن وہ ناکام رہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
( أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِين َ)
ترجمہ: کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو۔ [هود:13]

پھر انہیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ اس جیسی صرف ایک سورت ہی لے آئیں، لیکن اس میں بھی وہ ناکام رہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ )
ترجمہ: اگر تمہیں اس کلام میں   شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو تم بھی اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے سب ہم نواؤں کو بھی بلا لو۔ اگر تم سچے ہو۔ [البقرة:23]

اب یہ تفصیل کہ قرآن مجید کس اعتبار سے معجزہ ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کی مختلف آرا ہیں، ان میں سے سب سے بہتر جیسے کہ الوسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرآن کریم کلی اور جزوی  ہر دو اعتبار سےمعجزہ ہےیہاں تک کہ قرآن مجید کی چھوٹی سے چھوٹی سورت  بھی معجزہ ہے، سورت کی ترتیب اور سیاق و سباق ، بلاغت، غیبی امور کی خبریں، عقل اور معنوی باریک بینی میں مطابقت وغیرہ ان سب چیزوں کا مماثل لانے سے انسانیت عاجز ہے، بسا اوقات یہ سب کچھ ایک ہی آیت میں واضح اور جلی ہوتا ہے، اور بسا اوقات واضح نہیں بلکہ مخفی ہوتا ہے، مثلاً کہ : ہر آیت میں غیبی امور کی خبر نہیں ہوتی، تو اس میں کوئی عیب والی بات نہیں ہے، کیونکہ جن آیات میں وجوہِ اعجاز ہیں وہی کافی ہیں اور ان سے مقصد پورا ہو رہا ہے۔" انتہی
"روح المعانی " ( 1/29)

اجمالی طور پر ذکر شدہ ہر ایک قسم کے تحت بہت سے تفصیلی دلائل بھی آتے ہیں جنہیں یہاں ذکر کرنے کی جگہ نہیں ہے، اس کیلیے بہتر یہ ہو گا کہ آپ اس موضوع پر لکھی گئی کتب کی طرف رجوع کریں۔

تمام مسلمانوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ کتاب و سنت کا علم حاصل کریں، صحیح عقیدے کی تعلیم دینے والی کتابوں کا مطالعہ کریں، اور اپنے دینی  امور سیکھیں تا کہ دینداری میں بہتری آئے اور اپنے پروردگار کی بصیرت کے ساتھ بندگی کر سکیں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب