جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

خاوند بے نماز ہے اور تين طلاقيں دے ديں

175590

تاریخ اشاعت : 05-03-2024

مشاہدات : 592

سوال

تقريبا تين برس قبل ميرى شادى ہوئى، اور اب دس ماہ سے ميرى خاوند سے عليحدگى ہو چكى ہے، ہم اپنى ازدواجى زندگى خوش وخرم بسر كر رہے تھے، اس ليے كہ ميرا خاوند مشكل طبيعت والا ہے، ميں محسوس كرتى ہوں كہ وہ ميرى قدر نہيں كرتا، يا پھر ميں جس حالت ميں ہوں وہ مجھے قبول نہيں كرتا، اور اس نے مجھے كئى ماہ قبل ٹيلى فون پر ايك ہى بار تين طلاقيں دے ديں.

ليكن ميرا خيال ہے كہ جو كچھ وہ كہہ رہا تھا اس كى نيت نہ تھى، اس كے بعد كئى ماہ تك ہمارا تعلق بڑا محبت والا رہا يہاں ايك اور پربلم يہ ہے كہ گھر ميں دو كتے ہيں، جن سے ميرا خاوند بہت زيادہ مانوس ہے، جب ہم اكٹھے اسى گھر ميں رہتے تھے تو مجھے وہاں كتوں كے ساتھ رہتے ہوئے بڑى مشكل ہوتى تھى...

برائے مہربانى ميرے اس مشكل حالات ميں ميرى مدد فرمائيں، ا للہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.  

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جب مرد اپنى بيوى كو " تجھے تين طلا " يا " تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق " كے الفاظ بولے تو فقھاء كرام كے راجح قول كے مطابق اسے ايك طلاق واقع ہو گى، مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 96194 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

جب طلاق كے لفظ صريح ہوں مثلا ميں نے تجھے طلاق دى، يا تم طلاق يافتہ ہو، يا تجھے طلاق تو ان الفاظ ميں طلاق كى نيت شرط نہيں، بلكہ صرف الفاظ بولنے سے ہى طلاق واقع ہو جائيگى.

دوم:

كتے ركھنا حرام ہيں، صرف جو شريعت مطہرہ نے استثناء كيا ہے اسى غرض سے كتا ركھا جا سكتا ہے، اور وہ شكار كے ليے يا پھر جانور كے ليے يا كھيتى كى حفاظت كے ليے، اس سے گھروں كى حفاظت كے ليے ركھنا بھى ملحق ہوگا.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 69840 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

ليكن ان استثنائى حالات ميں بھى كتا گھر سے باہر ركھا جائيگا؛ كيونكہ گھر ميں كتے كى موجودگى فرشتے كے دخول ميں مانع ہے.

ابو طلحہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس گھر ميں كتا اور تصوير ہو اس گھر ميں فرشتے داخل نہيں ہوتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3322 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2106 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 33668 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ جس گھر ميں كتے ركھے گئے ہيں، اس كى بجائے كسى دوسرے گھر ميں رہے، اور خاوند كو اسے دوسرى رہائش لے كر دينى چاہيے.

سوم:

علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق كسل و سستى كے ساتھ نماز ترك كرنا كفر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج كر ديتى ہے اس كے دلائل بہت ہيں جنہيں آپ سوال نمبر ( 5208 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.

انسان كى آزمائش ابتلاء ميں يہى سب سے بڑى چيز ہے اور خاوند كا سخت ہونا اور بيوى كے حقوق ميں كوتاہى كرنے كا ترك نماز سے مقارنہ و موازنہ نہيں كيا جا سكتا؛ كيونكہ اس كا ترك نماز پر قائم رہنا اس كے ليے اس كى بيوى كو حرام كر دےگا.

كيونكہ كسى بھى مسلمان عورت كے ليے كسى كافر كى بيوى بننا جائز نہيں، اس ليے آپ پر واجب و ضرورى ہے كہ آپ اسے نماز بروقت ادا كرنے كى دعوت ديں، اور جب تك نماز كى  پابندى نہيں كرتا اسے اپنے قريب مت آنے ديں، اگر وہ توبہ كر لے اور نماز كى پابندى كرنے لگے تو الحمد للہ.

اور اگر وہ عدت ختم ہونے تك نماز ترك كرتا رہے تو نكاح فسخ ہو جائيگا، اور حيض والى عورت كى عدت تين حيض ہے، جسے حيض نہيں آتا اس كى عدت تين ماہ اور حاملہ عورت كى عدت وضح حمل ہے.

جيسا كہ آپ سمجھ رہى ہيں يہ مسئلہ بہت عظيم ہے، اس كے نتائج خطرناك ہيں، اس كا تقاضا ہے كہ آپ اس مشكل اور پرابلم كا پورے اہتمام سے علاج كريں، اور اس كے ليے آپ خاوند كو وعظ و نصيحت كرنے كے ساتھ ساتھ اس كے سامنے اس كا حكم بھى بيان كريں، اور اپنے قريب مت آنے ديں.

اسى طرح آپ علاج كے ليے كسى اہل علم اور خير و صلاح قريبى رشتہ دار يا اسلامك سينٹر كے ذمہ دار وغيرہ كو بھى درميان ميں ڈال سكتى ہيں، تا كہ وہ اس معاملہ كى خطرناكى كو سمجھ كر كوئى علاج كرے، اور نماز ادا كرنے تك اس كا آپ كے قريب آنا حرام ہے.

اللہ تعالى سے ہم دعا گو ہيں كہ وہ آپ كے خاوند كو ہدايت نصيب فرمائے، اور آپ دونوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب