الحمد للہ.
ہم آپکی دعوتی سرگرمیوں اور علم و آگہی پھیلانے کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن ایک بات آپ کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ دعوتی کام کیلئے ضروری ہے کہ طریقہ کار شریعت کے مطابق ہونا چاہئے، پھر شرعی کام کیلئے استعمال ہونے والے ذرائع بھی شرعی ہوں۔
اور ہم دین کے بارے میں عوام الناس کی طرح زبان درازی نہیں کرینگے کہ اہداف کی وجہ وسائل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، بلکہ ہم یہی کہیں گے کہ اہداف اور وسائل دونوں کا شرعی ہونا ضروری ہے۔
آپ نے ذکر کیا "میرا ایک لڑکی سے رابطہ ہوا، ہماری آپس میں گفتگو شریعتِ اسلامیہ سے باہر بالکل نہیں ہوتی تھی"آپ دونوں کیلئے یہی غلطی کی ابتدا تھی، اس لئے کہ شریعت نے اجنبی لڑکیوں سے بات چیت اور ان سے گفتگو کرنے سے منع کیا ہے؛ کیونکہ یہ پر فتن راستہ ہے، اور زبان کی حفاظت انتہائی ضروری ہے، اسی بات چیت کی وجہ سے کتنے لوگوں کا نقصان ہوا؟! اور کتنے ہی لوگوں کیلئے فتنے کھڑے ہوئے، ذرا اپنے آپ سے پوچھو کہ تم اس وقت کس حد تک دور جا پہنچے ہو، ذرا کسی اور شخص سے بھی پوچھ کر دیکھو جس کے ساتھ یہی معاملہ ہوا ہے، اور پھر غم بھری داستانیں پڑھتے جاؤ جسکا سبب یہی تساہل بنا ہے۔
بخاری (5096) اورمسلم (2740) نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے بعد میری امت پر مردوں کیلئے خواتین سے بڑھ کر خطرناک فتنہ نہیں آئے گا)
ابو نعیم نے "حِليہ" (4/84) میں میمون بن مہران سے نقل کیا وہ کہتے ہیں: "تین چیزوں سے اپنے نفس کو آزمائش میں مت ڈالنا: کسی بھی حکمران کے پاس مت جانا چاہے تمہارا ارادہ اسے اطاعتِ الہی کے بارے میں نصیحت کرنے کا ہو، کسی لڑکی کے پاس مت جانا چاہے تم نے قرآن ہی کیوں نہ سیکھانا ہو، کسی بھی خواہش پرست کی بات پر کان مت دھرنا، اس لئے کہ تمہیں نہیں معلوم اس کی کونسی بات تمہارے دل میں اتر جائے"
اس لئے آپ پر ضروری ہے کہ اس لڑکی سے رابطہ بالکل منقطع کردو، اور اسے بتلا دو کہ دوبارہ رابطے کیلئے شرعی راستے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے؛ پھر اگر شرعی حل کیلئے تم دونوں پر عزم ہو اور اسکے لئے طاقت بھی رکھتے ہو تو ابھی سے اس حل کو اپنا لو، بصورتِ دیگردونوں میں سے ہر کوئی اپنے اپنے راستے پر چلتا بنے؛ پھر اگر تمہارے حالات درست ہوجائیں، اور شادی کے حقیقی امکانات ہوں، اور اس لڑکی کی شادی نہ ہوئی ہو، اور نہ ہی منگنی ہوئی ہو تو آپکے لئے منگنی کا پیغام بھیجنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن موجودہ صورتِ حال میں جبکہ شادی کی استطاعت نہیں ہے، یہ کوئی عقل اور حکمت والی بات نہیں کہ خوابوں اور خیالوں کے پیچھے بھاگتے رہو، اور اپنے لئے برائیوں کے دروازے کھولتے جاؤ۔
اور شہوت کو کنٹرول کرنے کیلئے آپ دونوں روزے رکھو، جیسے کہ صحیح بخاری (1905) اورمسلم (1400) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ نے فرمایا: (نوجوانو! جس کے پاس شادی کی استطاعت ہے، وہ شادی کرلے، شادی سے اُس کی آنکھیں جھک جائیں گی اور شرمگاہ زنا سے محفوظ ہوجائے گی، اور جس کے پاس استطاعت نہیں ہے وہ روزے رکھے اس لئے کہ روزے اسکی شہوت توڑ دے گے)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتےہیں:
"اس حدیث میں شادی کے خرچے برداشت نہ کرنے والے کو روزے رکھنے کی راہنمائی کی گئی ہے" انتہی
یہ بات یاد رکھو کہ شہوت ایک عارضی حالت ہے، جب بھی آپ اس کے بارے میں سوچیں گے یہ بڑھتی جائے گی، اور اسکے خطرات بھی زیادہ ہو جائیں گے، اور اگر آپ اپنی توجہ اس سے ہٹا لیں ، اور اسکا خیال اپنے ذہن میں نہ لائیں تو شہوت ٹوٹ جاتی ہے، اور اسکے خطرات بھی ٹل جاتے ہیں۔
ان تمام امور کے ساتھ ساتھ اللہ سے گڑگڑا کر مدد مانگو، کہ آپکو عفت، پاکدامنی، اور شکوک و شبہات سے دور رکھے۔
اس طرح سے اللہ کی توفیق اور مدد کیساتھ ہم اس مشکل پر کابو پا سکتے ہیں اور اس امتحان والی گھڑی کو کامیابی سے گزار سکتے ہیں۔
مزید معلومات کیلئے آپ سوال نمبر (50737) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ اعلم .