جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ایک لڑکے نے لڑکی کو دین کی دعوت دی اور دونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔

176000

تاریخ اشاعت : 15-01-2014

مشاہدات : 8526

سوال

میں 21 سال کا نوجوان ہوں، میں دعوتی کام کیا کرتا تھا، بے پردگی کے بالکل مخالف تھا، میرا ایک لڑکی سے رابطہ ہوا، ہماری آپس میں گفتگو شریعتِ اسلامیہ سے باہر بالکل نہیں ہوتی تھی، اللہ کے فضل سے میری وجہ سے وہ سیدھے راستے پر آگئی، اور شرعی لباس و حجاب پہننا شروع کردیا، لیکن غیر متوقع طور پر وہ مجھے چاہنے لگی، میں نے خواتین میں دعوتی کام ترک کردیا، اور سب سے بول چال بند کردی، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں، اور اللہ بھی اس بات کا گواہ ہے کہ میرا مقصد تفریح نہیں تھا، میں صرف اللہ کی طرف دعوت دیتا تھا، میری نیت بھی اس بارے خالص تھی، وہ لڑکی مجھے بہت زیادہ چاہنے لگی، مجھے اسکا اخلاق اور سچے جذبات دل کو بھانے لگے، اب مجھے بھی لگتا ہے کہ میں بھی اسے چاہنے لگا ہوں، اور میں اسے اللہ اور اسکے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر حاصل کرنا چاہتا ہوں، میں نے قطع تعلقی کی ہوئی ہے اوراس سے بات بھی نہیں کرتا، تو اب وہ مجھے پیغامات بھیجتی رہتی ہے کہ وہ میرے بارے میں اپنے جذبات کو کنٹرول نہیں کرسکتی ، اور وہ بھی یہ نہیں چاہتی کہ حرام کام میں واقع ہو، مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میری وجہ سے کسی حرام کام کا ارتکاب نہ کر لے، میں نے اسے ہر سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنے کا کہاہے، اب مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا کروں، میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں اسے شریعت الہی کے مطابق چاہتا ہوں، لیکن میرے اندر ابھی اتنی طاقت نہیں ہے؛ تو وہ اپنی شہوت کنڑول کرنے کیلئے کیا کرے، اور میں اپنے لئے کیا کروں؟ مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں کہیں گناہ میں ملوث نہ ہوجاؤں، اور جہنم کی آگ میں نہ جا گروں، اللہ مجھے اپنی پناہ میں رکھے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم آپکی دعوتی سرگرمیوں اور علم و آگہی پھیلانے کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن ایک بات آپ کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ دعوتی کام کیلئے ضروری ہے کہ طریقہ کار شریعت کے مطابق ہونا چاہئے، پھر شرعی کام کیلئے استعمال ہونے والے ذرائع بھی شرعی ہوں۔

اور ہم دین کے بارے میں عوام الناس کی طرح زبان درازی نہیں کرینگے کہ اہداف کی وجہ وسائل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، بلکہ ہم یہی کہیں گے کہ اہداف اور وسائل دونوں کا شرعی ہونا ضروری ہے۔

آپ نے ذکر کیا "میرا ایک لڑکی سے رابطہ ہوا، ہماری آپس میں گفتگو شریعتِ اسلامیہ سے باہر بالکل نہیں ہوتی تھی"آپ دونوں کیلئے یہی غلطی کی ابتدا تھی، اس لئے کہ شریعت نے اجنبی لڑکیوں سے بات چیت اور ان سے گفتگو کرنے سے منع کیا ہے؛ کیونکہ یہ پر فتن راستہ ہے، اور زبان کی حفاظت انتہائی ضروری ہے، اسی بات چیت کی وجہ سے کتنے لوگوں کا نقصان ہوا؟! اور کتنے ہی لوگوں کیلئے فتنے کھڑے ہوئے، ذرا اپنے آپ سے پوچھو کہ تم اس وقت کس حد تک دور جا پہنچے ہو، ذرا کسی اور شخص سے بھی پوچھ کر دیکھو جس کے ساتھ یہی معاملہ ہوا ہے، اور پھر غم بھری داستانیں پڑھتے جاؤ جسکا سبب یہی تساہل بنا ہے۔

بخاری (5096) اورمسلم (2740) نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے بعد میری امت پر مردوں کیلئے خواتین سے بڑھ کر خطرناک فتنہ نہیں آئے گا)

ابو نعیم نے "حِليہ" (4/84) میں میمون بن مہران سے نقل کیا وہ کہتے ہیں: "تین چیزوں سے اپنے نفس کو آزمائش میں مت ڈالنا: کسی بھی حکمران کے پاس مت جانا چاہے تمہارا ارادہ اسے اطاعتِ الہی کے بارے میں نصیحت کرنے کا ہو، کسی لڑکی کے پاس مت جانا چاہے تم نے قرآن ہی کیوں نہ سیکھانا ہو، کسی بھی خواہش پرست کی بات پر کان مت دھرنا، اس لئے کہ تمہیں نہیں معلوم اس کی کونسی بات تمہارے دل میں اتر جائے"

اس لئے آپ پر ضروری ہے کہ اس لڑکی سے رابطہ بالکل منقطع کردو، اور اسے بتلا دو کہ دوبارہ رابطے کیلئے شرعی راستے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے؛ پھر اگر شرعی حل کیلئے تم دونوں پر عزم ہو اور اسکے لئے طاقت بھی رکھتے ہو تو ابھی سے اس حل کو اپنا لو، بصورتِ دیگردونوں میں سے ہر کوئی اپنے اپنے راستے پر چلتا بنے؛ پھر اگر تمہارے حالات درست ہوجائیں، اور شادی کے حقیقی امکانات ہوں، اور اس لڑکی کی شادی نہ ہوئی ہو، اور نہ ہی منگنی ہوئی ہو تو آپکے لئے منگنی کا پیغام بھیجنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن موجودہ صورتِ حال میں جبکہ شادی کی استطاعت نہیں ہے، یہ کوئی عقل اور حکمت والی بات نہیں کہ خوابوں اور خیالوں کے پیچھے بھاگتے رہو، اور اپنے لئے برائیوں کے دروازے کھولتے جاؤ۔

اور شہوت کو کنٹرول کرنے کیلئے آپ دونوں روزے رکھو، جیسے کہ صحیح بخاری (1905) اورمسلم (1400) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ نے فرمایا: (نوجوانو! جس کے پاس شادی کی استطاعت ہے، وہ شادی کرلے، شادی سے اُس کی آنکھیں جھک جائیں گی اور شرمگاہ زنا سے محفوظ ہوجائے گی، اور جس کے پاس استطاعت نہیں ہے وہ روزے رکھے اس لئے کہ روزے اسکی شہوت توڑ دے گے)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتےہیں:

"اس حدیث میں شادی کے خرچے برداشت نہ کرنے والے کو روزے رکھنے کی راہنمائی کی گئی ہے" انتہی

یہ بات یاد رکھو کہ شہوت ایک عارضی حالت ہے، جب بھی آپ اس کے بارے میں سوچیں گے یہ بڑھتی جائے گی، اور اسکے خطرات بھی زیادہ ہو جائیں گے، اور اگر آپ اپنی توجہ اس سے ہٹا لیں ، اور اسکا خیال اپنے ذہن میں نہ لائیں تو شہوت ٹوٹ جاتی ہے، اور اسکے خطرات بھی ٹل جاتے ہیں۔

ان تمام امور کے ساتھ ساتھ اللہ سے گڑگڑا کر مدد مانگو، کہ آپکو عفت، پاکدامنی، اور شکوک و شبہات سے دور رکھے۔

اس طرح سے اللہ کی توفیق اور مدد کیساتھ ہم اس مشکل پر کابو پا سکتے ہیں اور اس امتحان والی گھڑی کو کامیابی سے گزار سکتے ہیں۔

مزید معلومات کیلئے آپ سوال نمبر (50737) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب