سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایسی کوئی حدیث نہیں ہے کہ: "مجھ پر درود بھیجنے کے علاوہ تمام اعمال قبول یا مسترد ہو سکتے ہیں"۔

سوال

میں جہاں رہائش پذیر ہوں وہاں ایک حدیث نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کی جا رہی ہے کہ : " مجھ پر درود بھیجنے کے علاوہ تمام اعمال قبول یا مسترد ہو سکتے ہیں " ، اس حدیث کو عوامی جگہوں پر لکھا جا رہا ہے، اور اس کا حوالہ بھی نہیں بتلایا گیا، تو کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

خوب تلاش کے بعد بھی ہمیں سوال میں مذکور: " مجھ پر درود بھیجنے کے علاوہ تمام اعمال قبول یا مسترد ہو سکتے ہیں " حدیث کے اثرات بھی نہیں ملے؛ کیونکہ ہماری تلاش کے مطابق اس حدیث کو محدثین، مفسرین اور فقہائے کرام میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اس مفہوم کی کوئی اور حدیث بھی صحیح احادیث میں سے ہمیں نہیں ملی ۔

غالب گمان یہی ہے کہ یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف جھوٹی منسوب کی گئی ہے، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ حدیث دورِ حاضر میں ہی گھڑی گئی ہو، ویسے بھی اس حدیث میں باطل اور غلط مفہوم پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ بات ٹھیک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام افضل ترین عبادات اور قرب الہی کے مؤثر ذرائع میں سے ایک ہے، لیکن پھر بھی یہ عمل دیگر تمام اعمال کی طرح قبولیت اور رد دونوں میں سے کسی ایک کا حامل ہے۔

پھر دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (جو کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مسترد ہے۔) مسلم: (1718)

اسی طرح سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: آپ بتلائیں کہ: ایک شخص جہاد میں شریک اس لیے ہوتا ہے کہ اسے اجر اور شہرت دونوں ملیں، تو اسے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ تو اس شخص نے یہی سوال تین بار دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ہر بار یہی فرماتے: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی بندے سے وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالصتاً اسی کے لیے کیا گیا ہو، اور رضائے الہی کے لیے ہو) سنن نسائی: (3140)
اس حدیث کو البانی نے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔

بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنے والوں کے درود کو مسترد اس لیے کر دیا جاتا ہے کہ درود پڑھتے ہوئے ان کی نیت ریا کاری اور شہرت کی ہوتی ہے، یا پھر ان کے درود میں بدعتی الفاظ پائے جاتے ہیں، یا پھر عدم قبولیت کا کوئی اور سبب درود پڑھنے والے میں موجود ہوتا ہے، جبکہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ:

إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
 ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی متقین لوگوں سے قبول فرماتا ہے۔[المائدۃ: 27]

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب