الحمد للہ.
شہرت طلب کرنا ہر حالت میں مذموم ہے، مؤمن ہر وقت لوگوں کی نظروں سے دور اور انکساری کی حالت میں رہتا ہے، مؤمن یہ نہیں چاہتا کہ لوگ اس کا نام لیں، بلکہ خود پسندی، لوگوں میں ناموری، اور ان پر حکم چلانا کی خواہش انسان کا اپنے رب سے تعلق خراب کرنے والی بڑی چیزیں ہیں۔
ترمذی نے ایک روایت (2376) میں نقل کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے کہ: کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ میں اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال و جاہ کی چاہت انسان کا دین برباد کر دیتی ہے) اسے البانی نے “صحیح الجامع”(5620) میں صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا کہ مال و جاہ کی لالچ سے دینداری میں پیدا ہونے والا بگاڑ بکریوں کے ریوڑ میں بھوکے بھیڑیوں کی خونخواری سے کہیں کم نہیں ہوتا، اور یہ بات بالکل واضح بھی ہے؛ کیونکہ صحیح سالم دینداری میں مال و جاہ کی چاہت نہیں ہوتی؛ کیونکہ جس وقت دل کو اللہ کی بندگی کی چاشنی مل جائے تو کچھ بھی اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ وہ اسے اہمیت دیتے ہوئے اللہ کی بندگی پر اسے ترجیح دے، چنانچہ اس طرح سے للہیت رکھنے والوں کو ہمہ قسم کی برائی اور بے حیائی سے بچا لیا جاتا ہے” انتہی
“مجموع الفتاوى” (10 /215)
شہرت پسندی اور جاہ و جلال کے پیچھے پڑنا خفیہ قلبی امراض میں سے ہے، بلکہ دلوں کو تباہ کرنے والے ایسے امراض میں سے ہے جن کا انسان کو ادراک ہی اس وقت ہوتا ہے جب بات بہت دور نکل چکی ہوتی ہے، اور واپسی مشکل ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے دل کی اصلاح میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بہت سے دلوں کو “خفیہ شہوت” اپنے پنجے میں دبوچ کر انہیں اللہ کی محبت، بندگی، اور اخلاص کے اہداف پورے نہیں کرنے دیتی، جیسے کہ شداد بن اوس رحمہ اللہ نے کہا تھا: “باقی ماندہ عربو! مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ریا کاری اور خفیہ شہوت کا خدشہ لاحق ہے” تو ابو داود سجستانی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: یہ خفیہ شہوت کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ” منصب کی ہوس” انتہی
“مجموع الفتاوى” (10 /214-215)
طلبِ منصب و شہرت کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان لوگوں سے داد وصول کرنے کیلیے صحیح یا غلط ہر قسم کا رستہ اپناتا ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ (16460) میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (اپنے آپ کو مدح سرائی سے بچاؤ کیونکہ یہ انسان کو ذبح کر کے رکھ دیتی ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے “صحیح الجامع”(2674) میں صحیح قرار دیا ہے۔
مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مدح سرائی کی وجہ سے خود پسندی اور تکبر جنم لیتا ہے اور یہ دونوں کسی کو ذبح کرنے کے مترادف ہیں اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ذبح کرنے سے تشبیہ دی ہے۔
غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر آپ کی خیر خواہی کرنے والا خوشامد اور چاپلوسی پسند کرتا ہو تو آپ اس کی بالکل تعریف نہ کریں؛ کیونکہ ایسے شخص کا حق یہ بنتا ہے کہ آپ گناہ کے کام پر اس کی معاونت نہ کریں اور خوشامد طلب کرنا گناہ ہے، بصورتِ دیگر [یعنی: اگر چاپلوسی پسند نہ کرے] تو آپ اس کا شکریہ ادا کریں تا کہ وہ شخص دوسروں کے مزید کام آئے” انتہی
” فیض القدیر ” (3 /167)
اسی لیے ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ کہا کرتے تھے:
“شہرت کی ہوس میں پھنسا ہوا شخص اللہ تعالی کے ساتھ سچا نہیں ہے” انتہی
“العزلة والإنفراد” (ص 126)
اسی طرح ابراہیم نخعی اور حسن بصری رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ:
” دینی یا دنیاوی امور میں جس شخص کی جانب اشارے کر کے باتیں کی جائیں تو یہی اس کی آزمائش کیلیے کافی ہے، اس آزمائش میں وہی کامیاب ہوتا ہے جسے اللہ کامیاب فرمائے” انتہی
” الزهد ” از: ابن سرّی (2 /442)
ابن محیریز رحمہ اللہ سے بھی یہی بات “تاریخ دمشق” (33 /18) میں منقول ہے۔
دوم:
اگر ہمیں یہ چیز سمجھ میں آ گئی ہے تو یقیناً محفوظ راستہ صرف یہ ہے کہ رضائے الہی کی جستجو میں لگ کر شہرت و جاہ کی طلب سے پیچھے ہٹ جائے، چاہے وہ کسی جائز دنیاوی کام میں ہی کیوں نہ ہو۔
صحیح مسلم: (2965) میں عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں کے پاس تھے تو ان کا بیٹا عمر ان کے پاس آیا، تو انہیں دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: “میں اس سوار شخص کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں” اتنے میں عمر اپنی سواری سے اتر کر ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: “آپ اپنے اونٹوں اور بکریوں میں رہ رہے ہیں اور لوگ بادشاہت کیلیے لڑ رہے ہیں؟” تو سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر مارا اور کہا: “خاموش ہو جاؤ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: (بیشک اللہ تعالی اس بندے سے محبت فرماتا ہے جو متقی ، خود دار اور غیر مشہور ہو)”
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حدیث کے عربی الفاظ میں “الْخَفِيّ” [جس کا ترجمہ غیر مشہور کیا گیا ہے] کا مطلب یہ ہے کہ جو عبادت میں مشغول رہے اور کسی دوسرے کی طرف توجہ نہ دے” انتہی
اسی طرح اس لفظ کی تشریح کے بارے میں ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہاں “الْخَفِيّ” بول کر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کا نام تک نہیں لیا جاتا، عام طور پر جو شخص ایسا ہو وہ ہر اعتبار سے محفوظ ہی ہوتا ہے” انتہی
“كشف المشكل” (ص 167)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
“اس حدیث میں “الْخَفِيّ” سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے عیاں نہیں کرتا، اور نہ ہی دل میں یہ بات لاتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے آئے، یا لوگ ان کی جانب ہاتھ اٹھا اٹھا کر داد دیں، یا لوگوں میں ان کا چرچا ہو، یہ شخص مسجد سے گھر اور گھر سے مسجد تک ہی رہتا ہے، اپنے گھر سے عزیز و اقارب اور بہن بھائیوں سے ملنے کیلیے نکلتا ہے، اپنے آپ کو چھپا کر رکھتا ہے” انتہی
“شرح ریاض الصالحین” (ص 629)
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر ایسا ممکن ہو کہ کوئی آپ کا نام نہ لے تو اس کیلیے کوشش کرو؛ کیونکہ اگر آپ اللہ تعالی کے ہاں بلند مقام و مرتبہ رکھتے ہیں تو کوئی آپ کا نام لے یا نہ لے، کوئی آپ کی مدح سرائی کرے یا نہ کرے، لوگ آپ کے خلاف باتیں بنائیں ان سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا” انتہی
“التواضع والخمول” از: ابو بکر قریشی (صفحہ: 43)
سوم:
اگر کہیں ایسا ہو جائے کہ انسان دینی یا دنیاوی کوئی اچھا کام کرے اور پھر خود ہی بغیر کسی چاہت و محنت کے اس کام کی وجہ سے شہرت مل جائے تو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ اچھے کام سر انجام دینے کیلیے اپنی نیت درست رکھے، اور ان اچھے کاموں کی وجہ سے حاصل ہونے والی شہرت کی طرف توجہ نہ دے، اور نہ ہی شہرت و ناموری کمانے کیلیے کوشش کرے۔
کیونکہ لوگوں کے دینی و دنیاوی امور کے رہنماؤں اور پیشواؤں کیلیے شہرت حاصل ہونا لازمی امر ہے، اور ہر ایک کو اس کے قد کاٹھ سمیت لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق ہی شہرت ملتی ہے؛ لہذا یہ کوئی شرعی حکمت نہیں ہے جن چیزوں کو لوگوں سامنے رکھنا اور اس کی تعلیم لوگوں کو دینا ضروری یا مستحب ہو انہیں صرف اس بنا پر سامنے نہ لایا جائے کہ اس سے شہرت حاصل ہونے کا خدشہ ہے، یا لوگوں کو سکھلانے والے کا چرچا ہوگا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر معاملہ ایسا ہو کہ انسان اپنی شخصیت کو چھپانے اور مخفی رکھنے میں متردد ہو بہتر یہی ہے کہ اپنا نام چھپائے اور ظاہر نہ ہونے دے، لیکن اگر کسی صورت حال میں اپنی شخصیت کو سامنے لانا ہی ضروری ہو تو پھر اپنی شخصیت کو عیاں کر دے، مثال کے طور پر: لوگوں کو دینی تعلیم دینے کیلیے، علمی دروس اور ہر جگہ پر حلقہ تدریس قائم کرے، جمعہ اور عید کے دن خطبہ دے وغیرہ وغیرہ ، یہ صورت اللہ تعالی کے ہاں محبوب ہے” انتہی
“شرح ریاض الصالحین” (ص 629)
چہارم:
اگر ایسا ہو گیا کہ انسان کو شہرت اور پذیرائی ملے چاہے گلوکاری اور اداکاری جیسے غیر شرعی امور میں یا کسی ایسے کام میں جو کہ بنیادی طور پر جائز تو تھا لیکن اسے کرتے ہوئے نیت میں خرابی پیدا ہو گئی اور دل میں شہرت و جاہ کی ہوس انگڑائی لینے لگی تو اس صورت حال میں موسیقی، فحش گلوکاری، اور اداکاری وغیرہ جیسے حرام کام ترک کرنا واجب ہے، اور ان چیزوں کی وجہ سے ملنے والی شہرت کو کوشش کر کے اچھے مقاصد کیلیے استعمال کرے، لہذا اگر لوگوں کی جانب سے توجہ مسلسل ملتی رہے اور لوگ نقش قدم پر چلنے کیلیے تیار ہو جائیں تو پھر اسے چاہیے کہ خیر و بھلائی کے کاموں ، عقیدہ توحید و سنت ، علم نافع، اور عمل صالح نشر کیلیے بھر پور کوشش کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل اور ضمیر کا خصوصی خیال کرے اپنی نیت صحیح رکھے، اپنے ساری جد و جہد اللہ کیلیے خالص بنائے، پھر بھی لوگوں کی نظریں اس پر پڑتی ہیں تو یہ اللہ کے حکم سے ہے اس میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، وہ خود بھی لوگوں کی نظروں اور باتوں کا موضوع نہیں بننا چاہتا، اپنی ہر نقل و حرکت اللہ کیلیے بنا لے اور اپنی نیت کی خصوصی حفاظت کرے ،ایک لمحے کیلیے بھی غافل نہ ہو۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مجھے سب سے زیادہ اپنی نیت کی اصلاح کرنے کیلیے سخت محنت کرنا پڑی؛ کیونکہ یہ پل میں بدل سکتی ہے”
واللہ اعلم.