الحمد للہ.
اول:
اس حدیث کو امام ترمذی: (3521) نے لیث بن ابی سلیم سے روایت کیا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " تقریب التہذیب " (2/464) میں لکھتے ہیں کہ: " صدوق اختلط جداً ولم يتميز حديثه فترك " یعنی یہ راوی صدوق ہے، اس کا حافظہ بہت زیادہ خراب ہو گیا تھا کہ احادیث میں فرق نہیں کر پاتا تھا، تو اس سے حدیث لینا ترک کر دیا گیا۔ ختم شد
نیز اس حدیث کو الشیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف ترمذی وغیرہ میں ضعیف قرار دیا ہے۔
تاہم اس حدیث میں مذکور دعا ایک اور حدیث جو کہ اس حدیث سے قدرے لمبی ہے اس میں ثابت ہے، وہ یہ ہے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ دعا سکھائی: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ مِنْهُ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ تَقْضِيَهُ لِي خَيْرًا
ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے جلدی اور دیر سے ملنے والی ہر قسم کی خیر مانگتا ہوں، وہ بھی جس کا مجھ علم ہے اور وہ بھی جس کا مجھ علم نہیں۔ اے اللہ! میں جلدی آنے والے اور دیر سے آنے والے ہر قسم کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، جس کا مجھے علم ہے اس سے بھی اور جس کا مجھے علم نہیں اس سے بھی۔ یا اللہ! میں تجھ سے ہر وہ خیر مانگتا ہوں جو تجھ سے تیرے بندے اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مانگی ہے۔ اور میں ہر اس شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس شر سے تیرے بندے اور تیرے نبی نے پناہ مانگی ہے۔ یا اللہ ! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور ہر اس قول و عمل کا سوال کرتا ہوں جو جنت کے قریب کر دے۔ اور میں(جہنم کی) آگ سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور ہر اس قول و عمل سے پناہ مانگتا ہوں جو اس (جہنم) سے قریب کر دے۔ اور میں یہ سوال کرتا ہوں کہ تو جو بھی فیصلہ کرے اسے میرے لیے خیر کا باعث بنا دے۔
اس حدیث کو امام احمد نے مسند احمد : (24498) میں اور ابن ماجہ : (3846) نے روایت کیا ہے، نیز البانی نے اسے صحیح الجامع : (1276) میں صحیح قرار دیا ہے۔
نیز جس دعا کے الفاظ اچھے اور مناسب ہوں، اس کا معنی بھی ٹھیک ہو تو اس دعا کو مانگا جا سکتا ہے، چاہے وہ الفاظ ضعیف حدیث میں منقول ہوں، بلکہ اگر وہ الفاظ سرے سے کسی بھی حدیث یا اثر میں مذکور نہ ہوں تب بھی انہیں اپنی دعا میں شامل کیا جا سکتا ہے؛ اس لیے بندے کو یہ مکمل اختیار حاصل ہے کہ اپنی نماز میں دنیا اور آخرت کی بھلائی طلب کرنے کے لیے جو بھی دعا موقع مناسبت کے اعتبار سے اچھی لگے وہ مانگ لے، ساتھ میں یہ بھی واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ دعا کا اہتمام کرنا زیادہ بہتر اور بابرکت عمل ہوگا، تاہم یہ چیز دعا کے الفاظ میں شرط نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا [تشہد میں دعا مانگنے کی ترغیب دینے کے متعلق ]فرمان ہے: (پھر اپنی دعا میں انہی الفاظ کو استعمال کرے جو اسے سب سے اچھے لگتے ہوں)اسے بخاری: (835) اور مسلم: (402) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جبکہ سجدے میں محنت سے دعا مانگو؛ کیونکہ عین ممکن ہے کہ تمہاری دعا قبول کر لی جائے) اسے مسلم: (479) نے روایت کیا ہے۔
دعائے مطلق اور مقید کے بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (102600) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم