جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

جنبی کا روزہ صحیح ہوگا

سوال

ماہِ رمضان شروع ہونے سے پہلے مجھے احتلام ہوگیا، لیکن میں غسل نہیں کر سکا؛ جس کی وجہ یہ تھی کہ میرا آپریشن ہوا تھا، البتہ میں نے زیر ناف بال صاف کر لیے تھے، پھر میں نے سارا رمضان میں ایسے ہی روزے رکھے، تو کیا مجھے وہ روزے دوبارہ رکھنا پڑھیں گے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پیارے بھائی! اگر آپ غسل نہیں کر سکتے تھے تو آپ کیلئے تیمم کرنا ضروری تھا، کیونکہ تیمم جنابت، حیض، اور نفاس سب  کیلئے جائز ہے، یہ موقف جمہور اہل علم کا ہے، جبکہ بے وضو  حالت میں تیمم کرنے پر تمام اہل علم کا اجماع بھی ہے۔
مزید کیلئے دیکھیں: "المجموع شرح المهذب" ، از: نووی (2/207)

اس کی دلیل   وہ حدیث ہے جس میں ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز میں شامل نہیں ہوا تھا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو آپ نے اسے فرمایا: (اے فلاں! تم نے لوگوں کیساتھ جماعت سے نماز کیوں نہیں پڑھی؟) تو اس نے کہا: "میں جنبی ہوں، اور پانی موجود نہیں ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تو مٹی  سے [تیمم کرو] تمہیں وہی کافی ہوگی) بخاری: (344) مسلم: (682)

مزید کیلئے سوال نمبر: (40204) اور (87711) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:
طہارت  روزے کیلئے شرط نہیں ہے، کیونکہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر  کا وقت اپنی اہلیہ کیساتھ  ہم بستری کی وجہ سے جنابت کی حالت میں ہو جاتا تھا، آپ پھر بھی روزہ رکھتے تھے" بخاری: (1926) مسلم:(1109)

اور مسلم کے الفاظ ہیں کہ: "۔۔۔آپ احتلام کی وجہ سے جنبی نہیں ہوتے تھے"

اگر یہ معاملہ جماع کی وجہ سے جنبی ہونے کے بارے میں ہے تو احتلام کے بارے میں یہی حکم بالاولی ہونا چاہیے؛ کیونکہ جماع انسان اپنی مرضی سے کرتا ہے، لیکن احتلام میں کسی کو اختیار نہیں ہے۔

نیز علمائے کرام کا جنابت کی حالت میں روزہ صحیح ہونے سے متعلق  اجماع ہے ، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں:
"پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کو  رات کے وقت احتلام ہوگیا ، اور فجر سے پہلے غسل کا موقع ملنے کے باوجود غسل نہ کیا ، اور صبح کی نماز کا وقت جنابت کی حالت میں  ہوا ، یا پھر دن میں  احتلام ہو گیا تو اس کا روزہ صحیح ہے" انتہی
"المجموع" (6/308)

سوم:

آپ سے ایک بہت بڑی غلطی ہوئی ہے کہ آپ نے بغیر وضو کے نماز ادا کی، حالانکہ  نماز صحیح ہونے کیلئے  طہارت  شرط ہے، اور اس پر تمام علمائے کرام کا اجماع ہے، جیسے کہ ابن المنذر نے الاجماع(1) اور نووی نے شرح مسلم: (3/102) میں نقل کیا ہے۔

آپ کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ اہل علم سے اس بارے میں سوال کرتے، تا کہ آپ سے یہ غلطی سر زد نہ ہوتی، ویسے بھی آجکل فتوی لینے کے ذرائع بہت ہی آسان ہو چکے ہیں، ۔

جس کی وجہ سے دینی احکام سے متعلق آگہی بہت ہی سہل ہو چکی ہے، اس بارے میں  کوئی خاص مشقت نہیں اٹھانی پڑتی، چنانچہ اگر آپ نے اس مسئلہ سے متعلق حق بات تلاش کرنے میں کوتاہی کی ہے، تو آپ اللہ تعالی سے توبہ کریں، اور اپنے گناہ کی بخشش مانگیں، اور اگر آپ نے تلاش حق کیلئے کوئی کوتاہی نہیں کی تو [ان شاء اللہ]اللہ تعالی اپنی رحمت و کرم کی وجہ سے آپکو  لاعلمی کی بنا پر معذور  قرار دے گا۔

اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا آپ پر  بغیر طہارت کے ادا کی گئی نمازوں کی قضا واجب ہے؟ یا نہیں؟

یہاں یہ بات زیادہ معتبر معلوم ہوتی ہے کہ  اسے  لاعلمی اور تاویل کی وجہ سے  قابل قبول عذر سمجھا جائے گا، کیونکہ  یہاں پر مکلف شخص  کے ذہن میں یہ شبہ ہے کہ وہ غسل کرنے سے عاجز ہے، اس لیے اس پر غسل کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ غسل جنابت کا  متبادل تیمم بھی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "مجموع الفتاوی" (23/37) میں اسی موقف کی بھر پوری تائید کی ہے، چنانچہ رقمطراز ہیں:
"اور اگر کسی کو وجوب کا علم ہی نہیں تھا، چنانچہ جس وقت سے اس کو علم ہوا ہے اس کے بعد والی نمازیں  اسی کے مطابق ادا کرے گا، البتہ سابقہ نمازوں کا اعادہ لازمی نہیں ہے، جیسے کہ صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "مسیء الصلاۃ" دیہاتی سے فرمایا تھا: "جاؤ جا کر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی" آخر کار اس دیہاتی نے کہا: "قسم ہے اس ذات کی جس نے آپکو حق دیکر مبعوث فرمایا، مجھے اس سے اچھی نماز نہیں آتی، آپ مجھے ایسی نماز سکھا دیں جس سے میری نماز مکمل ہو" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز سکھائی" اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موجودہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا ہے، سابقہ نمازوں کے اعادہ کا حکم نہیں دیا، حالانکہ اس دیہاتی کا بیان تھا: " مجھے اس سے اچھی نماز نہیں آتی "

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما کو نماز کی قضا دینے کا حکم نہیں دیا، جس واقعہ میں  عمر رضی اللہ عنہ نے نماز  نہ پڑھی جبکہ عمار  چوپائے کی طرح  زمین میں لوٹ پوٹ ہوئے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ  کو جنابت کی حالت میں چھوڑی ہوئی نمازوں  کا حکم نہیں دیا، اسی طرح استحاضہ کو بھی  چھوڑی ہوئی نمازوں  کا حکم نہیں دیا، حالانکہ مستحاضہ خاتون کا یہ کہنا تھا کہ: "مجھے اتنا سخت استحاضہ ہوتا ہے کہ میں نماز روزہ نہیں کر سکتی" اسی طرح آپ نے ان لوگوں کو بھی دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جو رمضان میں اس وقت کھاتے پیتے رہے جب تک سفید رسی سیاہ رسی سے عیاں نہیں ہوگئی۔

اسی طرح  ابتدا میں نماز دو  ، دو رکعت  فرض تھی، پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی تو مقیم کی نماز چار رکعات کر دی گئیں، اس وقت مکہ ، حبشہ، اور دیہاتی علاقوں میں بہت سے مسلمان رہتے تھے، جنہیں لمبی مدت کے بعد  نماز کی رکعات  دو سے چار  میں تبدیل ہونے کا علم ہوا، وہ سب لوگ دو رکعتیں ہی اد اکرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک کو بھی سابقہ نمازیں دہرانے کا حکم نہیں دیا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بھی نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا جو منسوخ قبلہ کی طرف نماز پڑھتے رہے۔"

ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: "منسوخی سے لا علمی کی مثال یہ بھی ہے کہ  کچھ اکابر صحابہ  کرام  انزال کے بغیر جماع کرتے، اور اس کے بعد غسل نہ کرتے، کیونکہ ان کے نزدیک غسل واجب ہونے کیلئے منی کا خارج ہونا لازم تھا، پھر انہیں بعد میں اس کا علم ہوا کہ غسل واجب ہونے کیلئے منی خارج ہونا لازم نہیں ہے، بلکہ محض شرمگاہ شرمگاہ سے مل جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے، تاہم بعض صحابہ کرام کو اس حکم کی منسوخی کا علم نہیں تھا، وہ صحابہ کرام شرعی طور پر واجب کردہ طہارت کے بغیر ہی  نمازیں پڑھتے تھے" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک جنبی شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے فجر کی جماعت فوت ہو جانے کے ڈر سے وضو کر کے نماز پڑھ لی، تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
"صحیح موقف یہ ہے کہ اگر اس نے لاعلمی اور جہالت کی بنا پر ایسا کیا تو اس کا یہ عذر قابل قبول ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "مسیء الصلاۃ" کا لا علمی کی بنا پر عذر قبول کیا، اور اسے گزشتہ نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا، اسی طرح آپ نے اس عورت کا عذر بھی قبول فرمایا جو استحاضہ کی وجہ سے نمازیں چھوڑ رہی تھی، ایسے ہی عمار بن یاسر کو بھی جانور کی طرح لوٹ پوٹ ہونے پر معذور سمجھا، کہ ان کے مطابق تیمم ایسے ہی کرنا ضروری تھا، اس کے علاوہ بھی مزید شواہد ہیں" انتہی
" لقاء الباب المفتوح " ملاقات نمبر: (54)

مزید کیلئے ان سوالات کے جوابات بھی ملاحظہ فرمائیں: (21806) ، (45648) اور (150069)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب