الحمد للہ.
جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو صحت کی حالت میں طلاقِ بائنہ دے دے اور پھر خود اسکی عدت کے دوران فوت ہوجائے تو وہ خاتون اپنی طلاق کی عدت مکمل کریگی، اور اسکی عدت خاوند کے فوت ہوجانے پر [چار ماہ دس دن ]کی عدت میں منتقل نہیں ہوگی، نہ تو عورت کو وراثت میں سے کچھ ملے گا، اور نہ ہی سوگ منائے گی۔
اس کی مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (111905) کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں، اور اسی طرح دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (29 /325)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق بائنہ دیکر عدت کے دوران ہی فوت ہوجائے، تو کیا یہ عورت اس پر سوگ منائے گی؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"صحیح یہی ہے کہ وہ طلاق کی عدت گزارے گی، خاوند کی وفات والی عدت نہیں گزارے گی، اور نہ ہی اس پر سوگ منائے گی۔
اور اگر خاوند نے بیوی کو طلاق ایسی بیماری میں دی جس میں اسکے مرنے کا اندیشہ تھا ، اور پھر خاوند مر گیا تو بیوی کو وراثت ملے گی، لیکن اس پر سوگ نہیں منائے گی؛ کیونکہ یہاں اسے بیوی ہونے کی وجہ سے وراثت نہیں مل رہی، بلکہ خاوند نے اسے وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کی تھی [اور یہ شرعی اصول ہے کہ جو شخص کسی پر حیلہ بازی کرے تو اسے حیلہ بازی کے مقاصد سے متصادم چیز کیساتھ سزا دی جائے گی۔ مترجم] اس لئے خاوند کی کوشش کے مخالف انداز میں خاوند کو سزا دیتے ہوئے[بیوی کو وراثت میں سے حصہ دیا جائے گا]، یہی وجہ ہے کہ اگر بیوی اس دوران فوت ہوجائے تو خاوند کو بیوی کی وراثت میں سے کچھ نہیں ملے گا[کیونکہ یہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں رہے]"انتہی
ماخوذ از: " ثمرات التدوين من مسائل ابن عثيمين " (ص 116)
مطلقہ عورت کی اقسامِ عدت کے بارے میں جاننے کیلئے سوال نمبر: (12667) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم .