الحمد للہ.
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعال نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے نوازاہے، انکے فضائل کیلئے قرآن و صحیح احادیث ، تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنے تو گواہیاں دیتے ہی ہیں، ان گنت بیگانے بھی اس کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
سائل کے انداز سوال کے مطابق کسی بھی قابل اعتماد اور یقینی معاملے پربے سرو پا، اور جھوٹے احتمالات آسکتے ہیں ، جنہیں عقل بھی تسلیم نہیں کرتی۔
جس شخص کے دل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان کے بارے میں شک آتا ہے، وہ شخص حقیقت میں اللہ کے دین میں شک کر رہا ہے، قرآن ، شریعتِ الہی ، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اسے شک ہے!!
ذرا سوچیں! کن حضرات نے لوگوں میں قرآن کی تعلیمات عام کیں، ارکان دین لوگوں کو سیکھائے، شرعی احکامات کی تعلیم دی، فرامینِ الہی اور سنتِ نبوی کو عام کیا؟
لوگوں نے نماز ، روزہ، حج، لین دین، نکاح ، طلاق، اور لڑائی جھگڑے میں فیصلے کا طریقہ کیسے سیکھا؟
لوگوں کو جنت کی نعمتیں کس نے بتائی؟ جہنم کے عذاب کے بارے میں کس نے بتایا؟
انہیں توحید کا کیسے پتہ چلا؟ درست عقیدہ انہیں کہاں سے ملا؟
باری تعالی کے اسماء و صفات کا کیسے علم ہوا؟ درست اور غلط منہج میں کیسے تفریق کی؟ اور اہل بدعت کے طریقے سے کس نے روکا؟
مکارمِ اخلاق اور فضائلِ اعمال لوگوں کو کس نے بتائے؟
کیا یہ سمجھتے ہو کہ تمام انسانیت سے افضل نبی کیلئے اللہ تعالی نے جھوٹے ساتھیوں کا چناؤ کیا؟ جو اللہ اور اسکے رسول پر تہمت لگاتے ہوں؟!!
اگر ہم ان کے بارے میں یہ مان لیں کہ انہوں نےاپنے فضائل میں آیات اور احادیث گھڑ لیں تو ہم اس کے علاوہ تمام بیان شدہ شرعی احکام پر کیسے اعتماد کریں؟!
کیا ان مذموم صفات کے حامل افراد کو دینِ الہی اور سنتِ نبوی کے بارے میں امانت دار سمجھا جا سکتا ہے؟!اگر ایسے ہی ہو تو دین سارے کا سارا ہی مٹ جائے گا، نہ اسلام، نہ ایمان ، نہ احسان، بس جھوٹ، بہتان، اور انانیت ہی باقی رہ جائے، یہ بات یقیناً بہت بڑا بہتان ہے!!
اگر دین کو مٹا دینے والےاور اسلام سے خارج کر دینےوالےان وسوسوں کے پیچھے لگ جائیں تو بالکل احکامِ دین ثابت نہیں کئے جاسکتے، اس لئے کہ یہ تمام بھی صحابہ کرام کیلئےگھڑنا اور لوگوں میں پھیلانا خارج از امکان نہیں تھا!
آپ ہی کے اس انداز پر ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کہ یہ بتائیں کہ :لوگوں کے نسب نامے کیسے ثابت ہوسکتے ہیں؟ کوئی کیسے ثابت کر سکتا ہے کہ وہ واقعی فلاں کا بیٹا ہے؟!، ہمیں اس دنیا میں کیسے پتہ چلے گا کہ کون کون حرام زادے ہیں اور کون کون حلالی ہیں، کیا یہ ممکن نہیں کہ لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں اور زانی زنا کرنےکے بعد دعوی کردے کہ یہ میرا حقیقی بیٹا ہے، زناکی اولاد نہیں ہے!!
صحابہ کرام کی سچائی ، امانت کو اگر ہم تسلیم نہ کریں تو یہ دین کو بالکل تباہ کرنے کے مترادف ہے، اور کہیں بھی آپکو قابل اعتبار شرعی احکام، عقائد، اصول و ضوابط، اور حلال و حرام کا بیان نہیں ملے گا،اس لئے کہ ان میں بھی جزوی یا کلی طور پر خودساختگی کا شائبہ موجود ہے، کہ ان کو بیان کرنےوالےوہ لوگ ہیں جنہیں اللہ اور اسکے رسول پر جھوٹ بولنے کی عادت تھی،سبحانك هذا بهتان عظيم!!
یا اللہ ہم ان تمام باتوں سےبراءت کا اظہار کرتے ہیں، ہم اسے یکسر مسترد کرتےہیں، ہم ذہنوں میں پیدا ہونیوالے ایسے غلط خیالات سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ ! ہم تجھے اپنےدلوں میں صحابہ کرام کی شان کے بارے میں گواہ بناتے ہیں، وہ یقیناً سچی زبان والے تھے، امانتدار، اور انتہائی خوش اخلاق تھے، اور انکی فطرت بھی انتہائی پاک صاف تھی، انکے اعمال سب سے افضل تھے، اللہ کے قریب ترین کردینے والے وسائل کے مالک تھے، اور ایمان و اعتقاد کے اعتبار سے انتہائی عظیم انسان تھے۔
اسی لئے اہل سنت والجماعت کا بنیادی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام سے محبت کی جائے ، انکے ایمان و سچائی کی گواہی دی جائے، انہیں با عفت، امانتدار، اور ہمہ قسم کےشر سے محفوظ جانا جائے، اسی طرح فردِ واحد یا تمام صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا تباہی و بربادی اور صراطِ مستقیم سے دور ہونے کا باعث ہے : امام احمد رحمہ اللہ نے (3589) پر جید سند سے عبد اللہ بن مسعود سے بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ: “اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کی جانب دیکھا تو ان میں سب سے بہترین دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں اپنےلئے خاص کرلیا اور اپنا پیغمبر بنایا، پھر آپکے بعد تمام لوگوں کے دلوں کو ایک بار پھر پرکھا تو اصحابِ محمد کا دل سب سے اچھا پایا اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزراء بنایا، جو دینِ محمد کی خاطر قتال کرتے ہیں”
میمونی کہتے ہیں کہ: “مجھے احمد بن حنبل نے کہا: ابو الحسن! جب تم کسی شخص کو صحابہ کرام کا تذکرہ برے انداز میں کرتے دیکھو تو اسکے مسلمان ہونے پر شک کرو” انتہی “البدایہ والنھایہ” (8/148)
ابو زرعہ رازی کہتے ہیں کہ: “جب تم کسی کو اصحاب رسول کی شان میں گستاخی کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ شخص زندیق ہے ؛ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن دونوں ہمارےہاں حق ہیں، اور ہمارے پاس قرآن اور سنت نبوی کو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے پہنچایا ہے، اصل میں انکا ہدف صحابہ کرام پر جرح کرنے کے بعد کتاب وسنت کو معطل کرناہے، حالانکہ وہ خود جرح کے لائق ہیں، اور یہی لوگ زندیق ہیں” انتہی “الکفایہ فی علم الروایہ” از خطیب بغدادی صفحہ (49)
ابو نعیم الحافظ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “تم یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام سے درگزر اور انکے لئے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا، اور کہا کہ ان کے ساتھ نرمی سے برتاؤ کریں، چنانچہ جس نے انہیں گالی گلوچ کا نشانہ بنایا یا انکے داخلی معاملات کی اچھی توجیہ بیان نہیں کی تو وہ سمجھ لے کہ وہ صحابہ کے بارے میں اللہ کے کئے ہوئے حکم ، نصیحت اور آداب سے دور ہو رہا ہے، وہ اپنی زبان کا بے لگام استعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام، اسلام اور مسلمانوں کے بارے بد نیتی کی وجہ سے کر رہا ہے” انتہی “تثبیت الامامۃ” صفحہ (375)
ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ اپنا پیغام بنیادی طور پر کسے دینا ہے اور اسکا بعد میں وارث کسے بناناہے، اسے معلوم ہے کہ اس پیغام کو اٹھانے کیلئے کون مناسب ہے؟ جو اسے لوگوں تک مکمل امانتداری ، خیر خواہی کیساتھ پہنچائے، اسے پیغام کی عظمت کا بھی احساس ہو، اسکے حقوق بھی ادا کرسکے، اور اسکے احکامات پر ڈٹ کر عمل بھی کرے اور پھر باری تعالی کی نعمتوں پر شکر کرتے ہوئے اسکا قرب بھی حاصل کرے،اور اللہ ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو اس کام کے لائق نہیں ہیں، بالکل ایسے ہی اللہ تعالی کو یہ بھی علم ہے کہ اپنے رسولوں کی وراثت کیلئے کون لوگ مناسب ہیں؟ اور کون انکے بعد اس پیغام کو آگے پہنچانے کیلئے خلیفہ بن سکتے ہیں” انتہی “طریق الھجرتین” صفحہ (97)
انہی صحابہ کرام کے بارےمیں سورہ الفتح میں فرمانِ باری تعالی ہے: ( مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ)ترجمہ: محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر تو سخت -مگر- آپس میں رحم دل ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے -کثرت- سجدہ کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر امتیازی نشان موجود ہیں۔ ان کی یہی صفت تورات میں بیان ہوئی ہے اور یہی انجیل میں ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی اور اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی -اس وقت وہ- کسانوں کو خوش کرتی ہے۔ تاکہ کافروں کو ان کی وجہ سے غصہ دلائے۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ سورۃ الفتح/ 29
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے رافضہ کے کفر پر استدلال کیا ہے، کہ جنہیں صحابہ کرام کی وجہ سے غیض و غضب کا سامنا ہے، کہا: “اس لئے کہ صحابہ کرام انہیں غصہ دلاتے ہیں، اور جسے صحابہ کرام غصہ دلائیں وہ اس آیت کی بنا پر کافر ہے” انکے اس استدلال پر کچھ علمائے کرام نے موافقت بھی کی ہے، جبکہ صحابہ کرام کے فضائل میں احادیث بہت زیادہ ہیں، اسی طرح ایسی احادیث بھی موجود ہیں کہ جن میں صحابہ کرام کا برے الفاظ سے تذکرہ کرنا منع کیا گیا ہے، اگرچہ ان کیلئے اللہ کی تعریف ہی کافی ہیں، اور اللہ تعالی ان پر راضی بھی ہے “انتہی “تفسیر ابن کثیر” (7/362)
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “جس شخص نے کسی ایک صحابی کی تنقیص کی یا انکی روایات کو طعن کا نشانہ بنایا اس نے اللہ رب العالمین کی تردید کی اور مسلمانوں کی شریعت کو معطل کردیا” انتہی “تفسیر قرطبی” (16/297)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اس امت کے ابتدائی لوگوں نے ہی اقامتِ دین کا کام کیا، اس دین کی تصدیق کی، سیکھا، اور اس پر عمل کیا، پھر اسکی تبلیغ بھی کی ، اسکے بعد انکی شان میں طعن زنی کرنا دین میں طعن زنی ہے، یہی دین ِانبیاء سے اعراض کا موجب ہے، اصل میں تشیع کی ابتدا کا مقصد یہی تھا کہ اللہ کے راستے سے روک دیا جائے، اور رسول اللہ نے اللہ کی جانب سے جو پیغام پہنچایا ہے اسے معطل کردیا جائے، یہی وجہ تھی کہ جسقدر امت میں کمزوری آتی اسی قدر تشیع کا ظہور ہوتا، چنانچہ مُلحِد لوگوں میں اس قسم کے گمراہ کن نظریات حقیقی شکل میں ظہورپذیر ہوئے “انتہی “منہاج السنۃ” (1/18)
جس نقطہ کی طرف ہم توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے عادل اور صادق ہونے میں جزوی یا کلی شکوک و شبہات پیدا ہونا دین کے متعلق طعن زنی ہے، اور -نعوذباللہ -یہ ہی حقیقتِ کفر ہے۔
اللہ کے بندے! اس قسم کے وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگو، یہ سب شیطان کی جانب سے اس لئے ہے تا کہ تمہارے دین کو خراب کردے، اس سے بچنے کیلئے ذکر ِالہی کثرت سے کرو، زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرو، کتبِ احادیث کا مطالعہ کرو، ایسے ہی سیرتِ صحابہ اور فضائلِ صحابہ پر لکھی جانے والی کتب کی ورق گردانی کرو، مثلا: فضائلِ صحابہ از امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ۔
اور ہم آپکو ایک مختصر لیکن انتہائی مفید کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں اور وہ ہے: “صورتان متضادتان لجهود النبي الأعظم”از علامہ الشیخ ابو الحسن الندوی ، یہ کتاب اس سے پہلے مجلہ ازہرمیں بھی چھپ چکی ہے، بلکہ انٹر نیٹ پر آپکو پی ڈی ایف میں بھی مل سکتی ہے۔
واللہ اعلم .