الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کے والد پر رحم فرمائے اور انہیں بخش دے، نیز تمام مسلمان فوت شدگان پر رحم فرمائے، بیشک وہی سننے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔
دوم:
عورت کا اگر خاوند فوت ہو جائے تو حمل ہونے کی صورت میں اس کی عدت وضع حمل ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
ترجمہ: اور حمل والیوں کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں۔[الطلاق: 4]
اور اگر عورت حمل سے نہ ہو تو اس کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے؛ اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْراً
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ بیویاں چھوڑ کر فوت ہو جائیں تو ان کی بیویاں چار ماہ اور دس دن عدت گزاریں۔[البقرة :234]
سوم:
بیوہ خاتون اپنی عدت قمری مہینوں کے مطابق گزارے گی، شمسی مہینوں کے مطابق نہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام شرعی احکام قمری مہینوں کے ساتھ منسلک ہیں۔
نیز یہاں یہ بھی ہو گا کہ اگر خاوند کی وفات قمری مہینے کے آغاز میں ہوئی ہے تو ہر مہینے کا اعتبار اس کے چاند کے اعتبار سے ہو گا، چنانچہ اگر کچھ مہینے پورے تیس کے ہوں اور کچھ 29 کے ہوں تو ہر دو صورت میں مہینہ پورا تصور ہو گا، اس لیے 29 دن کا مہینہ ہونے کی صورت میں ناقص ایام کی قضا نہیں دینی پڑے گی۔
" الموسوعة الفقهية " ( 29 / 315 - 316) میں ہے کہ:
"طلاق، فسخ، یا خاوند کی وفات کی عدت میں مہینوں کا حساب قمری مہینوں کے مطابق ہو گا، شمسی مہینوں کے مطابق نہیں، چنانچہ اگر طلاق، یا خاوند کی وفات قمری مہینے کے پہلے دن ہو تو مہینوں کو چاند کے مطابق شمار کرے گی؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ
ترجمہ: وہ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں: چاند حج اور لوگوں کے لئے تقویم ہے۔[البقرة: 189]
چاہے اس مہینے میں دنوں کی تعداد 30 کی بجائے 29 ہی کیوں نہ ہو جائے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں مہینوں کے حساب سے عدت گزارنے کا حکم دیا ہے، [دنوں کے اعتبار سے نہیں] اس کی دلیل [ایسی خواتین کی عدت کے متعلق جنہیں حیض نہیں آتا] اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ
ترجمہ: تو ان کی عدت تین ماہ ہے۔[الطلاق:4]
اور [بیوگان کے متعلق]اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْراً
ترجمہ: چار ماہ اور دس دن عدت گزاریں۔[البقرة :234] "
تو اس لیے مہینوں کا اعتبار کرنا لازمی ٹھہرا، چاہے مہینہ پورے 30 دن کا ہو یا 29 دن کا۔" ختم شد
اور اگر خاوند کی وفات مہینے کے درمیان میں ہوئی ہے -سوال میں بھی یہی کیفیت ہے- تو پھر پہلے مہینے کے جتنے بھی دن باقی ہیں انہیں عدت میں شمار کرے اور پھر اس کے بعد تین قمری مہینے عدت گزارے چاہے وہ 30 کے ہوں یا 29 کے، اور پھر عدت کے بقیہ دس دن پورے کر لے۔ اب پہلے مہینے میں عدت کے ایام جو رہ گئے تھے اس کا حساب کرنے کے اہل علم کے ہاں دو طریقے ہیں:
پہلا طریقہ: پہلے مہینے کو تیس دن شمار کر لے، چاہے حقیقت میں وہ مہینہ 29 کا ہو یا 30 کا ، تو اگر پہلے مہینے کے صرف 20 دن ہی عدت میں گزرے ہیں تو پانچویں مہینے میں عدت کے دس دن پورے کر لے۔
دوسرا طریقہ: پہلے مہینے کے جتنے دن عدت میں شمار نہیں ہوئے تھے وہ سب دن پانچویں مہینے میں عدت کے طور پر گزارے، چاہے مہینہ 29 کا ہو یا 30 کا۔
مزید کے لئے آپ : المغني (8/85) ، كشاف القناع (5/418) ، الموسوعة الفقهية (29/315) کا مطالعہ کریں۔
مذکورہ بالا تفصیلات کی بنا پر:
اگر عدت کا آغاز 6-04-2012 کو ہوا تھا جو کہ ہجری تاریخ کے مطابق 14 جمادی الاولی 1433 کا دن بنتا ہے-اور عدت کا حساب لگانے کے لئے معتبر تاریخ بھی ہجری ہی ہے-، اس طرح عدت کا اختتام 24- رمضان -1433 کو ہو گا، جو کہ شمسی تاریخ کے مطابق 12-08-2012 بنتی ہے۔
واللہ اعلم