سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایک شخص کے پاس نقدی رقم موجود ہے، لیکن اسے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کیلئے انکی ضرورت ہے، تو کیا اس پر عمرہ کرنا واجب ہے؟

191751

تاریخ اشاعت : 26-05-2015

مشاہدات : 4032

سوال

سوال: میں نے ایک کمیٹی ڈالی اور اسے عمرے کی ادائیگی کیلئے مختص کر دیا، پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنے تخصص کی ڈگری مکمل کر لوں، اس سے میری آمدنی بہتر ہوگی، اور شادی بھی کر لونگا، لیکن اسکا خرچہ عمرے کے خرچے سے تین گنا زیادہ ہے؛ تو کیا میں عمرے کو مؤخر کرتے ہوئے اپنی موجودہ ضروریات پوری کرنے کے لئےکمیٹی سے حاصل ہونے والی رقم صرف کردوں؟ یا ایسے کرنے کی وجہ سے میں عہد کی خلاف ورزی کرنے والوں میں شامل ہو جاؤنگا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صحیح موقف یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس استطاعت ہو تو عمرہ ساری زندگی میں ایک بار کرنا واجب ہے۔

اس بارے میں تفصیلی بیان سوال نمبر: (39524) کے جواب میں پہلے بھی گزر چکا ہے۔

چنانچہ عمرہ  کے واجب ہونے کی شرائط [مالی اور بدنی استطاعت] موجود ہوں تو فوری طور پر عمرہ کرنا لازمی ہے، اور کسی عذر کی بنا پر ہی تاخیر کی جاسکتی ہے۔

حجاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حج اور عمرہ  ایک آزاد  ، مکلف، اور استطاعت رکھنے والے مسلمان پر زندگی میں ایک بار واجب ہیں، اور انہیں فوری ادا کرنا ضروری ہے"

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حجاوی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ: " اور انہیں فوری ادا کرنا ضروری ہے " یعنی: جب عمرہ یا حج واجب ہونے کی تمام شرائط پوری ہو جائیں تو  انہیں فورا ادا کرنا ضروری ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے:

1-  فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ
ترجمہ: اور اللہ تعالی کی خاطر  لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے۔[آل عمران : 97]

2- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ: ( لوگو! بیشک اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہذا تم حج کرو)

اور جس چیز کے بارے میں حکم کر دیا جائے تو اس کی جلد از جلد  تعمیل اصولی طور پر ضروری ہوتی ہے، یہی وجہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حدیبیہ کے موقع پر  اس وقت غصہ  میں آ گئے تھے جب لوگوں کو احرام کھولنے کا آپ نے حکم دیا، لیکن انہوں نے کچھ سستی کا مظاہرہ کیا۔

3- اس لئے بھی کہ انسان کو  یہ نہیں پتا کہ کل اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، لہذا عین ممکن ہے کہ  وہ آج تو اللہ کے حکم پر عمل کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، لیکن مستقبل میں  ایسا نہ ہو سکے۔

4-  اللہ تعالی نے نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا حکم دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو [البقرة : 148] ، اور  عمرہ کرنے میں تاخیر کرنا  اس حکمِ الہی کے بالکل مخالف ہے، اور حقیقت میں یہی امر درست ہے، کہ یہ فوری طور پر واجب ہے" انتہی
"الشرح الممتع"(7/13)

دوم:

اگر  ایسے شخص کے پاس رقم تو ہے لیکن اسے  مکان، شادی، یا تعلیم مکمل کرنے کیلئے اشد ضرورت ہے۔۔ تو ایسی صورت میں آئندہ استطاعت ملنے تک عمرہ مؤخر کرنے  پر کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ  ایسی صورت میں وہ  صاحب استطاعت ہی نہیں ہے، جبکہ حج اور عمرہ صاحبِ استطاعت پر ہی واجب ہوتے ہیں۔

حجاوی رحمہ اللہ : "زاد المستقنع" میں کہتے ہیں:
"[حج کیلئے]صاحب استطاعت وہ شخص ہے جو ، سفر کر سکے، اسکے پاس سفر کیلئے مناسب زادِ راہ، اور سواری  ہو، اسی طرح واجبات و شرعی ذمہ داریاں اور بنیادی حاجات مکمل کر لے"

حجاری رحمہ اللہ کا قول: " بنیادی حاجات " کا مطلب یہ ہے کہ : اس کے پاس بنیادی حاجات پوری کرنے کے بعد اضافی مال ہو، اور بنیادی حاجات میں ایسی چیزیں شامل ہیں جن کی انسان کو اکثر طور پر ضرورت پڑتی ہے؛ کیونکہ حاجات دو قسم کی ہوتی ہیں، بنیادی،  اور فرعی۔

بنیادیی حاجات  کی مثال: کتابیں، قلم، گاڑی،  وغیرہ اگرچہ  غیر ضروری اشیاء ہیں، لیکن انسانی زندگی میں انکی بہت ہی زیادہ اہمیت ہے،  مثلاً: طالب علم کتابوں کا بہت زیادہ محتاج ہے، اس لئے ہم یہ نہیں کہیں گے کہ: اپنی کتابیں بیچ کر  حج کرو۔۔" انتہی
" الشرح الممتع" (7/29)

مزید استفادہ کیلئے آپ سوال نمبر: (11534) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب