سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

دوسروں سے دعا کروانے کا حکم

1945

تاریخ اشاعت : 08-09-2014

مشاہدات : 18980

سوال

سوال: کسی مسلمان کا اپنے ایسے مسلمان بھائی سے دعا کروانے کا کیا حکم ہے جس میں خیر کی علامات پائی جاتی ہوں، اور وہ حج یا سفر وغیرہ پر جا رہا ہو، تو ایسے شخص سے پیٹھ پیچھے دعا کا مطالبہ کیا جاتا ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اویس قرنی کی تعریف کی تھی، اور صحابہ کرام کو اویس سے دعا کروانے کی ترغیب دلائی تھی، اسکی دلیل میں اویس قرنی کی حدیث ہے جسے مسلم نے (2542) میں ذکر کیا ہے، اور کیاشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کسی سے دعا کروانے کو مکروہ سمجھا ہے؟ اور حدیث کو اویس کے ساتھ خاص کیا ہے؟
ہمیں وضاحت کردیں، اللہ آپکو کامیاب کرے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ایسے شخص سے دعا کروانا جس کی دعا قبول ہونے کا امکان نیکی تقوی کی وجہ سے یا کسی ایسی جگہ جا کر دعا کرنےکی وجہ سے زیادہ ہو جہاں دعا کی قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، مثلاً سفر، حج ، عمرہ،وغیرہ، تو اصل یہی ہے کہ یہ کام جائز ہے۔

لیکن اگر اس سے دعا کروانے والے کا اُس شخص پر غیر شرعی اعتماد کا خدشہ ہو، یا دعا کروانے والا شخص ہمیشہ دوسروں سے دعا کرواتا ہو، یا اندیشہ ہو کہ جس سے دعا کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہےوہ کہیں خود پسندی کا شکار نہ ہوجائے، یہ سمجھنے لگے کہ میں ایسے درجے تک پہنچ گیا ہوں کہ مجھ سے دعا کروائی جاسکتی ہے، اور اس طرح وہ غرور کرنے لگے، تو ایسی صورتوں میں شرعاً ممنوعہ امور کی بنا پر کسی سے دعا کروانا ممنوع ہوگا، اور اگر ممنوعہ امور کا خدشہ نا ہو تو پھر اس کے بارے میں اصل یہی ہے کہ کسی سے دعا کروائی جاسکتی ہے۔

لیکن پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ کسی سے دعا کروانا مناسب نہیں ہےکیونکہ یہ صحابہ کرام کی عادت نہیں تھی، کہ ایک دوسرے کو دعا کیلئے کہتے ہوں۔

اور وہ روایت کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا:(میرے بھائی! ہمیں اپنی نیک دعاؤں میں مت بھولنا) جسے ابو داود (1498) اور ترمذی (3557) نے روایت کیا ہے، ضعیف ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

اور صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کیلئے متعدد بار درخواست کی ، [اسکے بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ]:یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ و مرتبہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، اسی لئے تو عکاشہ بن محصن نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ اللہ تعالی سے میرے لئے دعا کریں کہ مجھے بھی اللہ تعالی ان لوگوں میں سے بنا دے جنہیں وہ بغیر حساب و عذاب کے جنت میں داخل کریگا، تو آپ نے فرمایا: (توں انہی میں سے ہے) بخاری (6541) مسلم: (216) اور (218) اور (220)، اور ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ اللہ سے بارش نازل کرنے کی دعا کریں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً دعا کی۔ اس حدیث کو بخاری : (1013) اور مسلم (897) نے روایت کیا ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جو وصیت کی تھی کہ وہ اویس قرنی سے دعا کروائیں ، تو یہ بلا شک و شبہ اویس قرنی کے ساتھ خاص ہے، وگرنہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اویس قرنی ابو بکر، عمر، عثمان، علی، اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہم پلہ نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود کسی صحابی نے کسی دوسرےصحابی سے دعا کی درخواست کرنے کی ترغیب نہیں دی۔

جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ : جس شخص کی دعا قبول ہونے کے امکان ہوں تو اس سے دعا کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ کوئی شرعی قباحت اس میں نہ ہو، لیکن اسکے باوجود کسی سے دعا نا کروانا ہی بہتر ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: "لقاء الباب المفتوح " از : ابن عثيمين صفحہ: 212