جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ذاتی تیار کردہ ای سروسز فروخت کرنے کے بارے میں سوال

196706

تاریخ اشاعت : 07-04-2024

مشاہدات : 687

سوال

کیونکہ یہاں مغربی ممالک میں زیادہ علمائے کرام نہیں ہیں، اس لیے میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں ایک طالب علم ہوں نیز انٹرنیٹ اور ای کامرس کے شعبے کا ماہر ہوں۔ میں پانچ ڈالر کے عوض اہل عرب کو کچھ خدمات بیچنا چاہتا ہوں۔ ان خدمات میں سے ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو ای میل کے ذریعے مصنوعات کی فروخت کی خدمت پیش کرتی ہے، یعنی ایسی ویب سائٹ جو صارفین کو پیغامات بھیجنے اور انہیں مصنوعات فروخت کرنے، یا انہیں کسی خاص مسئلے سے آگاہ کرنے کی خدمت پیش کرتی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ خریدار اس سروس کو کس طریقے سے استعمال کرے گا، حالانکہ فروختگی کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ مجھ سے وعدہ کرے اور مجھ سے قسم کھائے کہ وہ اس خدمت کو کسی ایسے کام کے لیے استعمال نہیں کرے گا جو اللہ کو پسند نہ ہو۔ میں انہیں فیس بک کے صفحات بھی بیچتا ہوں، جن میں دیگر عرب ممالک میں رہنے والے لوگوں سے رابطہ کرنے میں سہولت ہو گی ، تو میرا خریدار ایک مسلمان اور عربی شخص ہو گا اور مجھے یہ وعدہ دے گا کہ وہ اس سہولت کو صرف اللہ کی رضا کے موجب کام میں ہی استعمال کرے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا میں یہ خدمات فروخت کرنا شروع کر دوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ای سروسز ذاتی طور پر حلال یا حرام نہیں ہوتیں، بلکہ انہیں جس کام کے لیے استعمال کیا جائے اس کے اعتبار سے حلال یا حرام ہوتی ہیں، چنانچہ اگر کوئی انہیں ظلم، اذیت اور گناہ کے لیے استعمال کرے تو یہ حرام ہوں گی، اور اگر کوئی انہیں مفید ، مباح اور جائز کام میں استعمال کرے تو یہ جائز اور مباح ہوں گی۔

ایسی سروسز کے تیار کنندہ یا فروخت کنندہ کی ذمہ داری انتہائی محدود دائروں تک محدود ہوتی ہے:

پہلا دائرہ: ایسی سروسز کے تیار کنندہ پر لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ایسے انداز سے تیار کرے کہ انہیں حرام کاموں میں استعمال ہی نہ کیا جا سکے، اس کے لیے حرام استعمال کے عمومی طریقوں کے متعلق تفصیلی اور باریک بین جانکاری کا ہونا ضروری ہے، پھر اس کے بعد ان غلط طریقوں کی روک تھام کے لیے سوچ بچار کرے۔

دوسرا دائرہ: جس خریدار کے بارے میں غالب گمان ہو یا یقینی طور پر علم ہو کہ وہ اسے غلط استعمال کرے گا تو اس کے سامنے اپنی خدمت پیش نہ کرے اور نہ ہی فروخت کرے۔

لیکن اگر آپ کو خریدار کے بارے میں علم نہ ہو، یا آپ کو محض شک ہو ، یا آپ کو علم ہو کہ خریدار اسے جائز کام میں استعمال کرے گا، یا آپ صارف سے اس چیز کے غلط استعمال نہ کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں، تو پھر ان تمام صورتوں میں آپ بری الذمہ ہو جائیں گے، اور ان شاء اللہ شرعی طور پر آپ کسی بھی جوابدہی سے مبرا ہوں گے۔

مذکورہ تفصیلات کے متعلق مدلل گفتگو ہماری ویب سائٹ پر کئی بار گزر چکی ہے، اس کے لیے بطور مثال سوال نمبر: (105325 ) اور (169955 ) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر انگور شراب بنانے والے شخص کو فروخت کر دئیے۔ مثلاً دکاندار کو اس بات کا علم ہو یا اسے گمان ہو، یا دکاندار کو خریدار کے کسی بھی ایسے اقدام کا علم ہو جو نافرمانی کے دائرے میں آئے، مثلاً: تازہ کھجوریں نبیذ بنانے والے کو فروخت کرنا، یا لڑاکا مرغے اور ٹکر مارنے والے مینڈھے جانوروں کی لڑائیاں کروانے والے کو فروخت کرنا حرام ہے؛ کیونکہ یہ حرام کام میں معاونت ہے۔ تاہم یہ بیع درست ہو گی؛ کیونکہ ممانعت کی وجہ بذات خود یہ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال ہے۔ لیکن اگر خریدار کے متعلق مبیع کو غلط استعمال کرنے کا شک ہو تو پھر بیع مکروہ ہے۔" ختم شد
" أسنى المطالب " (2/41)

یہاں اس چیز کی بھی ضرورت ہے کہ ایمیل ایڈریس اور فیس بک کے پسندیدہ شدہ پیجز فروخت کرنے میں راز داری کے اصولوں کو بھی مد نظر رکھنا لازم ہے، چنانچہ کسی کی رازداری پر کوئی قدغن نہیں آنی چاہیے، صرف اتنی ہی اجازت ہے جس قدر ان امور میں اجازت دی جاتی ہے، اس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (135514 ) اور (174411) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب