سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بدشكل بچہ ساقط كرانےكا حكم

1978

تاریخ اشاعت : 01-02-2005

مشاہدات : 5657

سوال

جب يہ معلوم ہو كہ بچہ كي بعض اعضاء بدشكل ہيں ( اورحمل پانچ ماہ كےدرميان پہنچ جائے ) يعني بچےكي كھوپڑي كےاوپر والےحصہ ميں خرابي پائي جاتي ہو اور ڈاكٹر اسقاط حمل كي نصيحت شدت سےكررہےہوں كہ يہ بچہ پيدائش كےبعد زيادہ سےزيادہ اكيس دن تك زندہ رہ سكتا ہےاور اكثر طور پر اس حالت ميں حمل كےآخري اور خطرناك مرحلہ ميں حمل ساقط ہوجاتا ہے....
تواس حالت ميں مسلمان خاوند اور بيوي كو كيا كرنا چاہيے؟ خاص كر جب انہوں نےدو مسلمان عالموں سےپوچھا بھي ہو اور دونوں نےاس كا مختلف جواب ديا ہو يعني ايك عالم دين تواسقاط حمل كي نصيحت كرتا ہے اور دوسرا حمل برقرار ركھنےكا كہتا ہے، اوراب خاوند اور بيوي كوجتني جلد ہو سكےاس كےمتعلق كوئي فيصلہ كرنا ہے، لھذا اس مسئلہ ميں شرعي حكم كياہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب حمل كي مدت چار ماہ ہوجائےاور بچےميں روح پھونك دي جائے تو اس وقت عمدا حمل ساقط كرنا ايك جان قتل كرنےاور روح نكالنےكےمترادف ہےاور ايسا كرنا گناہ كبيرہ ميں شامل ہوتا ہے، اورڈاكٹروں كايہ كہنا كہ بچہ بدصورت ہے اسےقتل كرناجائز نہيں كرتا، پھر اگر وہ حمل خود ہي ساقط ہو جائےاوربچہ مرا ہوا ہو يا پھر بچہ پيدا ہونےكےبعد مرجائے تووالدين كواس مصيبت پر اجروثواب حاصل ہوگا، اور اگر وہ بچہ زندہ رہےتووالدين كےصبر اور اس كي خدمت كرنےپر بھي انہيں اجروثواب ملےگا، اورمؤمن شخص كےليے جوكچھ بھي ہواس كےخيرہي خير ہے، ليكن روح كوختم كرنے ميں تو شراورگناہ ہي ہےاس كےعلاوہ كچھ نہيں.

يہ تواس وقت ہے جب ڈاكٹروں كےاندازےكوليا جائےاوراس پر اعتبار كيا جائے، اوراسي طرح بچےكي حالت ميں جوكچھ تبديلي پيدا ہوتي رہتي ہو سكتا ہے اس ميں تبديلي آجائے،

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد