الحمد للہ.
مذکورہ بالا کلمات میں کوئی غلط بات نہیں ہے، بلکہ سب کچھ ٹھیک ہے، اہل سنت والجماعت کے عقائد کے بالکل موافق ہے۔
جبکہ ایمان کی دو قسمیں بنانا ، ایمانِ مجمل، اور ایمانِ مفصل، مشہور بات ہے۔
چنانچہ ایمان مجمل: اصل اور حقیقی ایمان پر بولا جاتا ہے، اسی کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثِ جبریل میں فرمایا ہےکہ: (اللہ پر، اسکے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن،اور اچھی بری تقدیر پر توں ایمان لائے)مسلم، ایسے ہی اس ایمان کا تقاضا ہے کہ نماز ، روزہ اور زکاۃ بھی فرض ہیں۔ یہ تمام عبادات ہر مسلمان پر واجب ہیں، اور ایمان کی یہ قسم ان اعمال کے درست ہونے کیلئے شرط بھی ہے۔
ایمان کی یہ قسم تصدیق، توحیدِ الوہیت، توحیدِ اسماء و صفات اپنانے اور اجمالی طور پر اطاعتِ الہی و اطاعتِ رسول سے حاصل ہوتی ہے۔
ایمان کے اس مرحلے میں تفصیلی مسائل کے بارے میں علم ہونا ضروری نہیں ہے۔
جبکہ ایمانِ مفصل میں اسمائے حسنی ، صفات، فرشتوں کے متعلقہ غیبی معاملات، یومِ آخرت کے حالات، انبیاء و رسل ، اور اسکے علاوہ ایمان کے ارکانِ ستہ کے بارے میں عقیدے کے تفصیلی مسائل کا علم ہونا ضروری ہے۔
اسی طرح "چھ کلموں" - کلمہ طیبہ، کلمہ شہادت، کلمہ رد کفر، کلمہ تمجید، کلمہ توحید -کے بارے میں کوئی ظاہری طور پر غلطی یا خطاء نظر نہیں آتی،ہمیں ان کلمات کو جمع کرنے اور انکے ناموں کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں چل سکا، ایسے ہی اس بات کی تاریخی حیثیت کے بارے میں بھی ہمیں علم نہیں ہے، اور نہ ہی مذکورہ کتاب کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوسکی ہیں۔
مختصر طور پر صحیح اور غلط عقیدہ کے بارے میں جاننے کیلئے سوال نمبر (108579) کا جواب ملاحظہ کریں۔
و اللہ اعلم .