الحمد للہ.
الگ الگ پیدا ہونے والے دو بھائیوں کا ایک ہی دن یا مختلف دنوں میں عقیقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ افضل اور سنت یہی ہے کہ نومولود کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے گا، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہر بچہ اپنے عقیقے کے بدلے میں گروی ہوتا ہے، اسکی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے گا، اسکے بال مونڈے جائیں گے، اور نام رکھا جائے گا)
أبو داود (2455) نے اسے روایت کیا ہے، اور شیخ البانی رحمه الله " صحيح سنن أبو داود " میں اسے صحیح قرارد یا ہے۔
لیکن اگر والد کی طرف سے اپنے کسی بچے کا عقیقہ کرنے میں عذر کی بنا پر کچھ تاخیر ہوگئی، اور بعد میں والد نے چاہا کہ اپنےاس بچے کا عقیقہ کرے، اور ساتھ میں کسی دوسرے بچے کا بھی عقیقہ ہوتو یہ جائز ہے۔
یہاں یہ خیال کیا جائے کہ ہر بچے کی طرف سے الگ الگ عقیقہ کیا جائے گا، چنانچہ جن بچوں کی طرف سے عقیقہ نہیں کیا گیا ، وہ دو لڑکے ہیں تو انکی طرف سے عقیقہ چار بکریاں ہونگی، ہر لڑکے کی طرف سے دو جانور، اور اگر ایک لڑکی اور لڑکا ہے تو پھر انکی طرف سے تین بکریاں ہونگی، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا: (لڑکے کی طرف سے دو بکریاں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری)
اسے ترمذی (1435) نے روایت کیا ہے، اور شيخ البانی رحمه الله نے " صحيح سنن ترمذی "میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
چنانچہ یہی افضل اور کامل طریقہ ہے۔
اسی طرح " فتاوى اللجنة الدائمة للإفتاء – پہلا ایڈیشن- " (11/441) میں ہے کہ:
"ایک آدمی کو اللہ تعالی نے بیٹوں سے نوازا تو اس نے اپنی تنگ دستی کی وجہ سے عقیقہ نہیں کیا، لیکن کچھ سال گزرنے کے بعد اللہ تعالی نے اسے اپنے فضل سے نوازا، تو کیا اسے عقیقہ کرنا پڑے گا؟
جواب: اگر واقعی ایسا ہی ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، تو ان بچوں کی طرف سے عقیقہ کرنا شرعی عمل ہے، ہر لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ذبح کی جائیں گیں" انتہی
واللہ اعلم .