سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

حق سے زيادہ مال ديا گيا

20062

تاریخ اشاعت : 18-07-2006

مشاہدات : 6430

سوال

جب مالك آپ كو آپكے مالى حقوق سے زيادہ رقم ادا كرے تو اسلام ميں شرعى حكم كيا ہو گا ؟
يا يہ كہ جب آپ ان سے كوئى چيز خريدنا چاہيں تو وہ قيمت سے كچھ رقم كم وصول كريں ؟
يا آپ كو باقى ملنے والى رقم سے زيادہ رقم دے دى جائے ؟
يا پھر ٹيلى فون كمپنى غلطى سے آپ كے بيلنس ميں كچھ رقم كا اضافہ كر دے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جو كچھ گزر چكا ہے اس ميں آپ كو چاہيے كہ حقداروں كے حقوق واپس كريں، آپ كے ليے كسى دوسرے كا ان كى غلطى اور خطا كى بنا پر مال لينا حلال نہيں ہے، انہوں نے جو مال آپ كو ديا ہے جو آپ كا نہيں تھا تو وہ مال آپ كے ليے وصول كرنا حلال نہيں ہے، اور جو انہوں نے آپ سے وصول كيا اور وہ ان كے حق سے كم تھا تو آپ كے ليے باقى رقم لينا حلال نہيں، اور جو رقم آپ كے بيلنس ميں غلطى اور بھول كى بنا پر زيادہ كر دى گئى ہے وہ بھى آپ كے ليے حلال نہيں، يہ سب ان شرعى دلائل ميں جمع ہيں:

فرمان بارى تعالى ہے:

اے ايمان والو! تم آپس ميں ايك دوسرے كا مال باطل اور ناحق طريقہ سے نہ كھايا كرو، مگر يہ كہ تمہارى آپس كى رضامندى سے تجارت ہوالنساء ( 29 ).

اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:

بلا شبہ اللہ تعالى تمہيں حكم ديتا ہے كہ تم امانتيں ان كے مالكوں كو واپس لوٹا دو، اور جب تم لوگوں ميں فيصلہ كرنے لگو تو فيصلہ عدل و انصاف كے ساتھ كرو، بلا شبہ اللہ تعالى تمہيں بہت اچھى نصيحت كر رہا ہے، يقينا اللہ تعالى سننے والا اور ديكھنے والا ہے النساء ( 58 ).

اور حديث ميں ہے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" منافق كى تين علامتيں اور نشانياں ہيں: جب بات كرتا ہے تو جھوٹ بولتا اور كذب بيانى سے كام ليتا ہے، اور جب وعدہ كرتا ہے تو وعدہ خلافى كرتا ہے، اور جب اس كے پاس امانت ركھى جاتى ہے تو اس ميں خيانت كرتا ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 33 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 59 ).

اور امام احمد نے روايت بيان كى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنے بھائى كا ناحق اور ناجائز طريقے سے مال حاصل كرے"

مسند احمد ( 94 , 23 ).

يہ اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے مسلمان پر دوسرے مسلمان شخص كا مال حرام كيا ہے.

اور ابن حبان كى روايت ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كسى بھى مسلمان كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے بھائى كى لاٹھى بھى اس كى رضامندى كے بغير لے"

علامہ البانىرحمہ اللہ تعالى نے " غايۃ المرام " ( 456 ) ميں اس حديث كو صحيح كہا ہے.

اور ابو حميد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ كى قسم تم ميں جو بھى كوئى ناحق چيز لے گا وہ روز قيامت اللہ تعالى سے ملے گا تو اسے اٹھائے ہوئے ہو گا، تو ميں تم ميں سے ايك كو جان لوں گا، جب وہ اللہ تعالى سے ملے گا تو اونٹ اٹھائے ہوئے ہوگا اور اس اونٹ كى آواز ہو گى، يا گائے اٹھائے ہوئے ہو گا اور وہ آواز نكال رہى ہو گى، يا بكرى اٹھا ركھى ہو گى جو مميا رہى ہو گى، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھايا حتى كہ ان كى بغل كى سفيدى نظر آنے لگى، اور وہ فرما رہے تھے: اے اللہ كيا ميں نے پہنچا ديا؟ "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6578 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1832 )

دوم:

ليكن اگر مالك آپ كو زيادہ دے تو وہ آپ كا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اس مال ميں جو آپ كے پاس اس حالت ميں آئے كہ آپ نہ تو اسے جھانك رہے ہوں، اور نہ ہى اسے مانگنے والے ہوں تو وہ مال لے لو، اور جو نہ آئے اس كا پيچھا نہ كريں"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1473 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1045 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب