جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا كفار سے كوئى چيز كرايہ پر حاصل كى جا سكتى ہے ؟

20421

تاریخ اشاعت : 22-07-2006

مشاہدات : 5829

سوال

كيا مسلمان كے ليے كسى كافر سے جائداد كرايہ پر حاصل كرنا جائز ہے؟
يونائيٹڈ سٹيٹ امريكہ ميں غير مسلموں كى تعداد مسلمانوں سے زيادہ ہے، افسوس ہے كہ وہ لوگ اپنى جائداد كے اندر اور باہر يا اپنى ملكيتى اشياء پر صليب لٹكاتے اور مجسمے ظاہر كرتے ہيں... الخ
ہم نے ہم نے شادى كى تقريب منعقد كرنے كے ليے ايك جگہ كرايہ پر حاصل كى جو كمرے ہم نے كرائے پر حاصل كيے اور جنہيں ہم استعمال كرينگے ان ميں حرام تصاوير نہيں ہيں، ليكن جگہ كے مالك كے پاس عمارت كے اندر كچھ اشياء ہيں، ان اشياء كى موجودگى مجھے تو اچھى نہيں لگتى، ليكن باوجود اس كے كہ اس علاقے ميں مسلمانوں كى كثرت ہے مگر ابھى تك كسى نے بھى اس طرح ( شادى كى تقريبات كے ليے ميرج ہال وغيرہ ) كى اشياء ميں سرمايہ كارى نہيں كى، اور جب ہم كوئى فليٹ كرايہ پر حاصل كريں تو پھر بھى ہميں اسى طرح كى مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا ہے ( عام سكولوں اور ہاسپٹلوں ميں بھى ہم يہ تصاوير ديكھتے ہيں... الخ )
مالك مكان اپنى رہائش والى جگہ پر جو چاہے لٹكا سكتا ہے اور جس چيز كا چاہے اظہار كرسكتا ہے اسے مكمل آزادى حاصل ہے، اور كرايہ دار كو بھى كرايہ پر حاصل كردہ جگہ ميں حلال اشياء ركھنے كى كھلى اجازت ہے، ميں شادى كى اس تقريب كو لوگوں كے ليے ايك نمونہ بنانا چاہتا ہوں، كيونكہ لوگوں نے تقريبات ميں مردوں اور عورتوں كو عليحدہ ركھنا چھوڑ ديا ہے، لھذا ميں ايك برى مثال نہيں بننا چاہتا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص كے ليے كسى غير مسلم اور كافر سے جائداد كرايہ پر حاصل كرنا جائز ہے، اور اسى طرح ہر قسم كے مباح معاملات كرنے بھى جائز ہيں، مثلا خريد و فروخت، اور رھن ( گروى ) وغيرہ.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے صحابہ كرام رضى اللہ عنہم يہوديوں وغيرہ كے ساتھ لين دين كرتے تھے.

اور پھر جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو ان كى درع ايك يہودى كے پاس ايك صاع جو كے بدلے رہن ( گروى ) ركھى ہوئى تھى.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2759 ).

جب كرايہ پر حاصل كردہ ہال حرام تصاوير سے خالى ہو تو آپ كو كوئى نقصان نہيں كہ مالك اپنى رہائش كے ليے خاص جگہ ميں كوئى حرام چيز يا پھر كوئى اور برائى كى چيز ركھتا پھرے.

مسلمانوں كا چاہيے كہ وہ اپنے ليے كوئى خاص جگہ حاصل كر كے اس كى ملكيت حاصل كريں، جہاں وہ اس طرح كى تقريبات كر سكيں، جس ميں وہ عورتوں كے ليے عليحدہ انتظام كريں، اور مردوں كے ليے عليحدہ، اور يہ جگہ مسجد سے دور نہيں ہونى چاہيے تا كہ وہاں تقريب كى صورت ميں نماز باجماعت ادا كر سكيں.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

جو لوگ امريكہ اور برطانيہ وغيرہ جيسے كفريہ ممالك ميں رہائش پذير ہيں، اور كفار كے ساتھ لين دين اور دوسرے معاملات كرتے ہيں، ايسے لوگوں كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى عنہ كا جواب تھا:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو ان كى درع ايك يہودى كے پاس رہن ( گروى ) ركھى ہوئى تھى، حرام تو يہ ہے كہ ان سے دوستى اور محبت كى جائے، ليكن خريدو فروخت ميں كوئى چيز نہيں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك بت پرست شخص سے بكرياں خريديں اور انہيں اپنے صحابہ ميں تقسيم كر ديا، حرام تو ان كے ساتھ دوستى لگانا اور ان سے محبت كرنا اور مسلمانوں كے خلاف كفار كى مدد كرنا ہے، ليكن يہ كہ مسلمان شخص ان سے خريدارى كرے يا پھر انہيں كوئى چيز فروخت كرے، يا ان كے پاس كوئى ضرورت ركھے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہوديوں كا كھانا كھايا، اور پھر ان كا كھانا ہمارے ليے حلال ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور ان لوگوں كا كھانا جنہيں كتاب دى گئى ہے تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہارا كھانا ان كے ليے حلال ہے المائدۃ ( 5 ).

ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ ( 19 / 60 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كو اس كى توفيق عطا فرمائے، اور آپ نے اللہ تعالى كى اطاعت كرنے اور نافرمانى سے دور رہنے كا ارادہ كيا ہے اس ميں آپ كى مدد و تعاون فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب