الحمد للہ.
جس نے بھي سودي قرض ليا اورپھر اس قرضے سے جائداد خريدي تو اس كے فوت ہونے كےبعد يہ جائداد بھي اس كے تركہ ميں شامل ہوگي اور وہ وراثت بنے گي ، اور مرنے والے شخص كوسودي لين دين كرنے كي بنا پر گناہ ہوگا .
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتے ہيں:
( حرام كمائي كامال صرف كمائي كرنے والے پر حرام ہے مثلا سود ، لھذا جب سودي لين دين كرنے والا شخص فوت ہوجائے تو ورثاء كے ليے اس كا مال حلال ہے ، ليكن جواشياء بعينہ حرام ہيں مثلا شراب وغيرہ تو يہ نقل كرنے والے اور جس كي طرف منتقل ہو اس پر بھي حرام ہے ، اور اسي طرح جوچيز حرام ہو اور اس ميں حرمت باقي رہے مثلا غصب اور چوري كردہ اشياء ، تو اگر كسي انسان نے كوئي چيز چوري كي اور مرگيا تووہ چيز وارثوں كے ليے حلال نہيں ہوگي اور پھر اگر اس كے مالك كا علم ہو تووہ چيز اسے واپس كي جائے گي وگرنہ مالك كي جانب سے صدقہ كردي جائے گي ) انتھي . لقاءات الباب المفتوح سے ليا گيا ( 1 / 304 )
اور مستقل فتوي كميٹي نے سودي قرضہ سے گھربنانے والے شخص كےبارہ ميں فتوي ديا كہ اس پر توبہ واستغفار كرنا لازم ہے ، ليكن عمارت منہدم كرنا لازم نہيں بلكہ رہائش وغيرہ كركے نفع حاصل كرنا جائز ہے . ديكھيں فتاوي اللجنۃ الدائمۃ ( 13 / 411 )
واللہ اعلم .