الحمد للہ.
والد یا والدہ ، چچا یا ماموں اور یا پھر استاد کے ہاتھ کو احترام و اکرام اور عزت افزائی کیلئے چومنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ، اور اگر اس میں کوئی خرابی واقع ہوتی ہو تو اس خرابی کی وجہ سے منع ہوجائے گا۔
بہوتی رحمہ اللہ “كشاف القناع” (2/ 157) میں کہتے ہیں:
“ہاتھ اور سر پر عزت واحترام اور عقیدت کی بنا پر بوسہ دینا جائز ہے،بشرطیکہ کہ شہوت سے خالی ہو، ظاہری طور پر یہ لگتا ہے کہ دنیاوی معاملات کیلئے بوسہ دینا جائز نہیں ہے، اور مذکورہ ممانعت کو اسی پر محمول کیا جائے گا” انتہی
اور “الموسوعة الفقهية” (13/ 131) میں ہے کہ:
“پرہیز گار عالم ، اور عدل کرنے والے حکمران کے ہاتھ کو چومنا جائز ہے، اسی طرح والدین ، استاد، اور تمام عزت و احترام کے لائق افراد کے ہاتھ کو چومنا جائز ہے، اسی طرح سر پر یا دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر بوسہ دینا بھی جائز ہے، لیکن مذکورہ تمام صورتیں صرف عزت افزائی ، یا استقبال،و الوداع کے وقت اظہار محبت اور احترام و عقیدت کی شکل میں ہیں، بشرطیکہ کہ شہوت بھی نہ پائی جائے”
ابن بطال کہتے ہیں:
“امام مالک ہاتھ پر بوسہ کو جائز نہیں سمجھتے، اس بارے میں بیان کی جانے والی روایت کو بھی درست نہیں سمجھتے، ابہری کہتے ہیں: امام مالک نے تعظیم اور تکبر کی صورت میں منع کہا ہے، لیکن اگر علم و عمل اور شرف کی وجہ سے قربِ الہی کی حامل شخصیت کے ہاتھ پر بوسہ دیا جائے تو جائز ہے” انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“قابل احترام شخصیت کے ہاتھ عزت افزائی کرتے ہوئے چومنے میں کوئی حرج نہیں ، جیسے کہ والد، عمر رسیدہ بزرگ، اور استاد وغیرہ، ہاں اگر کسی نقصان کا اندیشہ ہوتو پھر جائز نہیں، مثال کے طور پرجس کہ آپ ہاتھ چوم رہے ہو وہ خود پسندی کا شکار ہوجائے، اور یہ سمجھنے لگے کہ وہ بلند مرتبے پر فائز ہے، تو اس خرابی کی وجہ سے ہم اسکو منع سمجھے گے”
ماخوذ از: “لقاء الباب المفتوح” (177/ 30) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
ابن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ہاتھ کو چومنے کا کیا حکم ہے؟ اور قابل قدر شخصیت کے ہاتھ چومنے کا کیا حکم ہے جیسے استاد وغیرہ؟ اسی طرح چچا، اور ماموں اور دیگر عمر رسیدہ افراد کے ہاتھ پر بوسہ لینے کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر احترام اور عزت افزائی کیلئے ہو تو ہم والدین، علماء، قابل قدر شخصیات ، اور رشتہ داروں میں سے عمر رسیدہ افراد کیلئے اسے جائز سمجھتے ہیں،ابن الاعرابی نے ہاتھ وغیرہ کا بوسہ لینے کے بارے میں ایک رسالہ بھی تحریر کیا ہے، اسکو بھی پڑھیں۔
عمر رسیدہ رشتہ داروں، اور قابل قدر شخصیات کے ہاتھوں پر بوسہ صرف احترام کیلئے ہوگا، انکے سامنے جھکنے کیلئے نہیں، اور نہ ہی انکی تعظیم کیلئے ۔
ہم نے اپنے کچھ مشائخ کو اس سے منع کرتے ہوئے دیکھا ہے، ہمیں لگتا ہے یہ انکی طرف سے عاجزی اور انکساری کا اظہار ہے، نہ کہ وہ اسے حرام سمجھتے ہیں۔ واللہ اعلم” انتہی۔
مندرجہ بالا وضاحت کے بعد:
یہ معلوم ہوا کہ چچا اور ماموں کے ہاتھ کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ صرف احترام اور عزت افزائی کیلئے ہو۔
مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر (130154) کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔
واللہ اعلم .