الحمد للہ.
اول:
اسلام ميں سود كى حرمت تحريم مغلظ كا درجہ ركھتى ہے يعنى يہ بہت شديد حرام ہے، اور اللہ تعالى نے سود كا لين دين كرنے والے كى مذمت كى اور اس كے خلاف اعلان جنگ كيا اور روز قيامت اس كى برى عاقبت اور سزا بيان كرتے ہوئے فرمايا:
وہ لوگ جو سود خور ہيں وہ كھڑے نہ ہونگے مگر اس طرح جس طرح ايك شيطان كے چھونے سے خبطى بنايا ہوا شخص كھڑا ہوتا ہے، يہ اس ليے كہ وہ يہ كہا كرتے تھے كہ تجارت بھى تو سود كى طرح ہى ہے، حالانكہ اللہ تعالى نے تجارت كو حلال اور سود كو حرام كيا ہے، جو شخص اپنے پاس اللہ تعالى كى آئى ہوئى نصيحت سن كر رك گيا اس كے ليے وہ ہے جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كى طرف ہے، اور جو كوئى پھر دوبارہ ( حرام كى طرف ) لوٹا وہ جہنمى ہے، ايسے ہميشہ ہى اس ميں رہيں گے، اللہ تعالى سود كو مٹاتا اور ختم كرتا ہے، اور صدقات كو بڑھاتا اور زيادہ كرتا ہے، اور اللہ تعالى كسى ناشكرے اور گنہگار سے محبت نہيں كرتا البقرۃ ( 275 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد فرمايا:
اے ايمان والو! اللہ تعالى سے ڈرو اور جو سود باقى رہ گيا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم سچے اور پكے مومن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو تم اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے ساتھ لڑنے كے ليے تيار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ كرلو تو اصل مال تمہارا ہى ہے، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے البقرۃ ( 278 - 279 ).
اور پھر احاديث ميں بھى اس كى حرمت بيان ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور سود كھلانے، اور اسے لكھنے اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں" صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كوئى آدمى سود كا ايك درہم كھائے اور اسے يہ علم ہو كہ يہ سود كا ہے تو يہ اللہ تعالى كے ہاں 33 زنا كارياں كرنے سے بھى زيادہ سخت ہے"
اسے احمد اور طبرانى نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3375 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اس كے علاوہ بھى كئى ايك دلائل ہيں جو اس جرم كا حكم اور قباحت پر دلالت كرتے ہيں.
لہذا اسلام كا مالياتى نظام كسى بھى ايسے معاملہ اور لين دين كو نہيں رہنے ديتا جو سود پر مشتمل ہو، بلكہ شريعت اسلاميہ نے تو بعض ايسے معاملات كى بھى ممانعت كر ركھى ہے جو سود ميں پڑنے كے ذرائع بنتے ہيں.
دوم:
اس وقت موجودہ بنك سودى ہيں سوائے چند ايك كے اور وہ بھى نادر ہيں، اور كسى بنك كا اسلامى ملك پائے جانے كا معنى يہ نہيں كہ وہ بنك بھى اسلامى ہے، ان بنكوں كے بارہ غالب يہى ہے كہ ان بنكوں كا باہر كےيہودى اور صليبى بنكوں سے گہرا تعلق اور رابطہ ہے، اور يہ واقعہ بہت افسوسناك ہے كہ يہ بنك مسلمان ممالك جن ميں بسنے والے مسلمانوں كى تعداد ايك مليار سے بھى زيادہ ہونے كے باوجود ان ممالك ميں كوئى اسلامى بنك نہيں جو سود سے بچا ہو، سوائے چند ايك انجنسيوں اور اداروں كے.
لہذا مسلمانوں ميں سے اہل حل وعقد پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اس موضوع كى حقيقت كو سمجھتے ہوئے حقيقتا اس پر غور كريں اور ايك مستقل اسلامى بنك كا نظام بنائيں، اہل اسلام كے علماء كرام موجود ہيں، اور كام كرنے والے ماہر قسم كے افراد بھى متوفر ہيں، اور الحمد للہ سرمايہ بھى بہت ہے.
سوم:
صحيح اسلامى مالياتى نظام ايسا ہے جو سود سے بالكل عارى اور خالى ہے، اس ميں ذرہ برابر بھى سود نہيں پايا جاتا، اس ليے كہ يہ نظام اللہ تعالى كى كتاب قرآن مجيد اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت حديث شريف سے ليا گيا ہے.
اور سوال ميں آپ كا يہ كہنا كہ ميں نے اسلامى مالياتى نظام كے لين دين ميں ديكھا ہے كہ: يہ قول تفصيل طلب ہے كہ آپ ان سودى معاملات كى تفصيل بيان كريں جو آپ نے ديكھا ہے، ہو سكتا ہے كہ آپ نے بعض معاملات كو سودى گمان كر ليا ہو حالانكہ وہ ايسے نہ ہوں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى حالت كى اصلاح فرمائے اور مسلمان حكمرانوں كو ايسے امور سرانجام دينے كى توفيق عطا فرمائے جس ميں خير وبھلائى اور اصلاح ہو، سب تعريفات اللہ رب العالمين كى ہيں جو سب جہانوں كا پروردگار ہے.
واللہ اعلم .