الحمد للہ.
ضرورت پڑنے پر افطاری کیلئے گولہ بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے، خاص طور پر اگر شہر بہت بڑا ہو، اور مسجدیں دور دور ہوں، کہ ہوسکتا ہے کہ مسجد سے دور گھروں والے آذان کی آواز نہ سنیں، چنانچہ اسی ضرورت کے پیشِ نظر اسے جائز قرار دیا گیا۔
شیخ عبد الکریم الخضیر سے یہی سوال پوچھا گیا: "افطاری کے وقت گولہ بجانے کا کیا حکم ہے؟"
تو آپ حفظہ اللہ نے جواب دیا:
"یہ ضروت کی بنا پر ہے، اِس کی وجہ کوئی برائی نہیں، کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تو اِسکی ضرورت تھی لیکن اِسکے باوجود استعمال نہیں کیا گیا، چنانچہ اہل علم کے قواعد کے مطابق یہ بدعت کے دائرے میں شمار ہوگا۔
ہم کہیں گے: صورتِ حال بالکل مختلف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں چھوٹا سا معاشرہ تھا، وہ سورج اور صبح صادق کو طلوع و غروب ہوتے دیکھتے تھے، لیکن اب کسی کو صبح صادق نظر آتی ہے تو کسی کو طلوعِ آفتاب، اور کچھ صرف غروبِ آفتاب ہی دیکھتے ہیں، چنانچہ لوگوں کو اس پر متنبہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، اور ویسے بھی یہ خالصتاً مصلحت پر مبنی ہے، کسی بھی انداز سے اس میں خرابی نہیں پائی جاتی، اور شریعت مصلحتوں کا حصول یقینی بناتی ہے۔
چنانچہ سحری یا افطاری کے وقت توپ کا گولہ چلانا بھی مصلحت ہی ہے، اور لوگوں کو اسکی ضرورت بھی ہے"
یہ اقتباس شیخ کی ویب سائٹ http://www.khudheir.com/text/610 سے لیا گیا ہے۔
ہاں یہ کام کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ مکمل احتیاط سے کام لیں اس لئے گولہ وغیرہ کا استعمال حقیقی طور پر سورج کے غروب ہونے کے بعد ہی کیا جائے، کہیں اسکی آواز پر غروبِ آفتاب سے پہلے ہی روزہ افطار نہ کر لیں۔
واللہ اعلم .