سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

قریب المرگ شخص کو بیہوش کرنے کا حکم

208491

تاریخ اشاعت : 23-12-2021

مشاہدات : 6703

سوال

کسی انسان کو روح کے نکلتے وقت بیہوش کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

موت انسان کو پیش آنیوالی اٹل حقیقت ہے، اس کیلئے انسانی روح کا دنیاوی جسم ، اور زمین سے رابطہ کاٹتے ہوئے اخروی عالم میں پہنچا دیا جاتا ہے، اسکے بعد روح جسم سے الگ ہوجاتی ہے، اور اسکے بعد جسم پر اسکا کوئی کنٹرول نہیں رہتا۔

موت کے بارے میں ابن سعد کی "الطبقات الكبرى" (4/260) ، اور امام حاکم کی"مستدرك " (5915) میں ہے کہ:

"عوانہ بن حکم کہتے ہیں کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: "قریب المرگ شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ عقل وشعور باقی ہونے کے باوجود موت کے بارے میں بیان نہیں کرتا!" چنانچہ جب خود عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا وقت قریب آیا تو آپکے بیٹے عبد اللہ بن عمرو نے کہا: "ابا جی! آپ کہا کرتے تھے کہ: "قریب المرگ شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ عقل وشعور باقی ہونے کے باوجودموت کے بارے میں بیان نہیں کرتا!" اب آپ ہمیں موت کے بارے میں بتلائیں آپکی عقل اور شعور باقی ہے"تو انہوں نے کہا: "بیٹا! موت بیان سے بالا تر ہے، لیکن میں کچھ نہ کچھ تمہیں بتلاتا ہوں: مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ میری گردن پر رَضویٰ پہاڑ ہے، اور میرے پیٹ میں کھجور کے کانٹے ہیں، اور مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میری جان سوئی کے سوراخ سے نکالی جا رہی ہے!!" انتہی

چنانچہ انسان کی ایسی شدید حالت میں ادویات اور آرام دہ نسخے فضول ثابت ہوتے ہیں؛ کیونکہ موت روح اور جسم کو علیحدہ کرنے کیلئے غیبی عمل ہے، جبکہ بیہوشی یا سُن کرنے سے ہمارے دنیاوی جسم میں موجود تکلیف کا احساس کم ہوتا ہے، لیکن موت غیبی معاملہ ہے، جسکا تجربہ یا مشاہدے سے کوئی تعلق نہیں۔

لہذا ہمیں یہی بہتر لگتا ہے کہ حالت نزع میں بیہوش کرنا درست نہیں ؛ اسکے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:

پہلا سبب:

بیہوش کرنا اصل میں منع ہے، الا کہ کوئی ضرورت ہو تو جائز ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں بیہوش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ بیہوشی حالتِ نزع کی تکلیف کو رفع نہیں کرسکتی؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس غیبی حالت کا ظاہری اسباب وتجربات سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے؛ لہذا مذکورہ حالت میں بیہوش کرنے کا کوئی شرعی جواز باقی نہیں رہتا، اور نہ ہی بیہوشی کا موجب بننے والے اسباب موجود ہیں کہ ہم حالتِ نزع میں بیہوشی کے یقینی یا ظنی فوائد جانتے ہوں۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر (46050)کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوسرا سبب:

کوئی شخص بھی موت کے وقت کے بارے میں یقین دہانی نہیں کروا سکتا ، جبکہ بیہوشی کے جسمانی صحت پر مضر اثرات یقینی ہوتے ہیں، بلکہ اطباء کا کہنا ہے کہ : "یہ بھی زہر ہی کی ایک قسم ہے"،اور یہ بات غیر مناسب ہے کہ موت آنے کے شک اور وہم کی بنا پر بیہوش کرکے حقیقی نقصان اٹھالیں؛ بلکہ یہاں بیہوش کرنا تو ایسے معاملات میں دخل اندازی ہے جن کی حقیقت کے بارے میں ہمیں علم ، تجربہ ہی نہیں؛ اور ویسے بھی مذکورہ حالت میں بیہوشی کے مفید ہونے کےمتعلق ہمیں علم نہیں ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نیک آدمی کو حالت نزع میں اللہ تعالی اطاعت گزاری اور عبادت کی توفیق دیتا ہے، وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، اپنی زبان کو ذکرِ الہی سے تر رکھتا ہے، ایسے شخص کی زبان سے ہم آخرت میں ذخیرہ بننے والے کلمہ شہادت سننے کے منتظر ہوتے ہیں،لیکن بیہوشی اس عظیم کام سے محروم کردیگی، جیسا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جسکی آخری بات: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ " ہوئی تو وہ جنت میں جائے گا) اسے ابو داود نے (3116)روایت کیا ہے ، اسکے بارے میں ابن حجر الہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یعنی مطلقا بغیر کسی عذاب کے جنت میں داخل ہوگا، یا پھر کچھ اسباب کی بنا پر جنت میں داخل ہو ہی جائے گا، [ہیثمی کہتے ہیں] ہم نے اسکا یہ معنی اس لئے بیان کیا ہے کہ : ہر مسلمان جنت میں ضرور جائے گا، چاہے ابتدائی طور پر اسے عذاب جھیلنا پڑے،اس مفہوم کے مطابق مرتے وقت کلمہ پڑھنے والے شخص کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے، کیونکہ جنت میں تو سب مسلمان ہی چلے جائیں گے، چنانچہ اس حدیث میں جو امتیاز بیان کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ: مرتے وقت کلمہ پڑھنے والا بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے والوں کے ساتھ جنت میں جائے گا، یا پھر اللہ تعالی اسکے لئے مقرر عذاب میں کچھ کمی کردیگا، اور یہ شخص وقت سے پہلے ہی جنت میں پہنچ جائے گا، اگر کلمہ نہ پڑھتا تو جنت میں دیر سے جاتا " انتہی

ماخوذ از: " الزواجر " (2/333)

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب