الحمد للہ.
اول :
مسلمان شخص کے لیے جائز نہيں کہ وہ بغیر کسی عذر کے نماز کے وقت میں تاخیر کرے حتی کہ اس کا وقت ہی نکل جائے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
یقینا مومنوں پر وقت مقررہ میں نماز ادا کرنا فرض ہے النساء ( 103 )
وہ جس کی بناپر نماز میں تاخیر مباح ہے اوروقت پرادا نہیں ہوسکتی ان میں نیند اوربھول شامل ہے اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث میں ملتی ہے :
انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جو کوئي نماز ادا کرنا بھول جائے یا اس سے سو جائے تواس کا کفارہ یہ ہے کہ یاد آنے پراسے ادا کرے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 684 ) ۔
اورملازمت اورپڑھائي کی کلاسیں وغیرہ کوئي ایسا عذر نہيں جس کی وجہ سے نماز لیٹ کرنا جائز ہوکہ اس کے وقت میں ادا نہ کی جاسکیں ، اللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ لوگوں کی اپنے اس فرمان کے ساتھ مدح کی ہے :
ایسے لوگ جنہیں تجارت اورخرید وفروخت اللہ تعالی کے ذکر سے اورنماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی ، اس دن سے ڈرتے ہیں جس بہت سے دل اوربہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائيں گي النور ( 37 ) ۔
دوم :
جس نے بھی بغیر کسی عذر شرعی کے نماز ادا نہ کی حتی کہ وقت ہی نماز کا وقت جاتا رہا تواس نے ایسی معصیت کا ارتکاب کیا جوایک کبیرہ گناہ ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے کیے پر اللہ تعالی سے توبہ کرے اورآئندہ عزم کرے کہ وہ نماز وقت پرادا کرے گا ۔
اسے بغیر کسی عذر کے نماز ضائع کرنے کےبعد قضاء کچھ فائدہ نہيں دے گی ، لھذا اسے کثرت سے نفل ادا کرنے چاہییں ہوسکتا ہے ان نوافل کی بنا پر اس کے فرائض کی کمی اور نقص پوری ہوجائے ۔
لیکن اگر کسی شخص کی نماز کسی شرعی عذر کی بنا پررہ جائے اورنماز کا وقت جاتا رہے مثلا نیند یا پھر بھول گیا ہو توجب بھی اس کا عذر ختم ہو اسے فورا نماز ادا کرنا ہوگي ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
( جوکوئي بھی نماز بھول جائے اسے جب بھی یاد آئے نماز ادا کرنی چاہیے کیونکہ اس کے علاوہ اس کاکوئي کفارہ نہیں ) صحیح مسلم ۔
اوراسے نماز بالکل اسی طرح ادا کرنا ہوگي جس طرح وقت میں ادا کی جاتی ہے اس میں نہ توزيادتی ہوگي اورنہ ہی کمی ، اوراسی طرح اس کی ھیئت وصفات میں بھی تبدیلی نہيں ہوگي ۔
حدیث میں ہے کہ قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام کا سفر میں نماز فجر کے وقت سوئے رہنے والا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب لوگ طلوع شمس تک سوتے رہے ۔
ابو قتادہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ :
( پھر بلال رضي اللہ تعالی عنہ نے نماز کے لیے اذان کہی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں ، اورپھر نماز فجر ادا اوراسی طرح کیا جس طرح روزانہ کیا کرتے تھے ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
قولہ : ( جس طرح روزانہ کیا کرتے تھے ) اس میں اشارہ ہے کہ فوت شدہ کی قضاء اسی طرح ہوگي جس طرح ادا میں ہوتی ہے ۔ اھـ
علماء کرام کے ہاں قاعدہ ہے کہ : قضاء ادائيگی کوبیان کرتی ہے ۔ یعنی عبادت کی قضاء ادا ہی کی طرح ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .